قومی خبریں

جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کا فیصلہ درست ٹھہرانے والے 5 ججوں نے کیا کچھ کہا؟

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی 5 ججوں کی آئینی بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

 

سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے 11 دسمبر کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے سے متعلق 2019 کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370(3) کی قوتوں کے تحت صدر جمہوریہ کا فیصلہ صحیح تھا اور اس پر سوال کھڑے کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

Published: undefined

چیف جسٹس چندرچوڑ کی صدارت والی 5 ججوں کی آئینی بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس پانچ رکنی آئینی بنچ نے تین فیصلے دیے ہیں۔ ایک فیصلہ چیف جسٹس چندرچوڑ، جسٹس گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کا تھا، جبکہ جسٹس کشن کول اور جسٹس سنجیو کھنہ نے اپنے الگ الگ فیصلے دیے تھے۔ تینوں فیصلے الگ الگ ضرور تھے، لیکن تینوں کا نتیجہ ایک ہی تھا۔ عدالت نے کہا کہ مرکز صدر جمہوریہ کے کردار کے تحت حکومت کی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔ یعنی عدالت عظمیٰ نے عرضی دہندگان کی دلیل کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ پارلیمنٹ یا صدر جمہوریہ اعلانیہ کے تحت کسی ریاست کے قانونی اختیارات کا استعمال کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

چیف جسٹس چندرچوڑ، جسٹس گوئی اور جسٹس کھنہ کے فیصلے میں کیا ہے؟

چیف جسٹس چندرچوڑ نے اپنے (اور جسٹس گوئی و جسٹس کھنہ کے) فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ کو جموں و کشمیر میں صدر جمہوریہ کے اعلان کے جواز پر فیصلہ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عرضی دہندگان نے اسے چیلنج پیش نہیں کیا ہے۔ عدالت نے عرضی دہندگان کی ان دلیلوں کو خارج کر دیا کہ صدر راج کے دوران مرکز کے ذریعہ کوئی تبدیلی والی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ صدر راج کے دوران ریاست کی طرف سے مرکز کے ذریعہ لیے گئے ہر فیصلے کو چیلنج نہیں دیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے ساتھ ہی کہا کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ بنا، یہ آئین کے آرٹیکل 1 اور 370 سے واضح ہے۔ اس کے پاس ملک کی دیگر ریاستوں سے الگ داخلی خود مختاری نہیں ہے۔

Published: undefined

اس فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 370 عارضی تھا، صدر جمہوریہ کے پاس اسے منسوخ کرنے کی طاقت اب بھی ہے۔ جموں و کشمیر میں جنگ کی حالت کے سبب آرٹیکل 370 عارضی انتظام کے طور پر نافذ کیا گیا تھا۔ وہاں کی قانون ساز اسمبلی کو مستقل باڈی بنانے کا ارادہ کبھی نہیں تھا۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ جب جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا تو جس خصوصی حالت کے لیے آرٹیکل 370 نافذ کیا گیا تھا، اس کا بھی وجود ختم ہو گیا۔

Published: undefined

ججوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ہمارا فیصلہ ہے کہ صدر جمہوریہ کا ریاست سے نہیں بلکہ مرکز سے حمایت کا مطالبہ جائز ہے، ہندوستانی آئین کے سبھی التزامات جموں و کشمیر پر نافذ ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہم آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے لیے آئینی حکم جاری کرنے کے صدر جمہوریہ کے اختیارات کے استعمال کو جائز مانتے ہیں۔ ہم موجودہ ریاست جموں و کشمیر سے لداخ کو الگ کر اسے مرکز کے زیر انتظام خطہ بنانے کے فیصلے کے جواز کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔

Published: undefined

جسٹس سنجے کشن کول نے اپنے فیصلے میں کیا کہا؟

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے جسٹس سنجے کشن کول نے کہا کہ آرٹیکل 370 کا مقصد جموں و کشمیر کو دھیرے دھیرے دیگر ہندوستانی ریاستوں کے برابر لانا تھا۔ انھوں نے حکومت اور حکومت سے الگ عناصر کے ذریعہ حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی جانچ کے لیے سچ اور صلح کمیشن بنانے کی ہدایت دی۔ آرٹیکل 367 کی ترمیم کو پچھلے دروازے کی شکل میں استعمال کرنا غلط تھا۔ آرٹیکل 356 لگایا جا سکتا ہے اور یہ مرکز یا صدر کو ریاستی مقننہ پر غیر آئینی کام کرنے سے نہیں روکتا ہے۔

Published: undefined

جسٹس سنجے کشن کول نے اپنے فیصلے میں ایک کمیشن بنانے کی بھی سفارش کی جو 1980 سے اب تک جموں و کشمیر میں ریاست یا ریاست کے باہر کے لوگوں کے ذریعہ کی گئی حقوق انسانی کی خلاف ورزی سے متعلق واقعات کی جانچ کرے گی اور اس پر ایک رپورٹ تیار کرے گی۔ ساتھ ہی یہ کمیشن صلح کے طریقوں کا بھی مشورہ دے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک ٹائم باؤنڈ عمل ہونا چاہیے۔ حالانکہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت فیصلہ کرے گی کہ کمیشن کس طرح بنایا جانا چاہیے۔

Published: undefined

جسٹس سنجیو کھنہ نے اپنے فیصلے میں کیا کہا؟

جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ ہمارے پاس صرف دو فیصلے ہیں۔ آرٹیکل 367 میں ترمیم کرنا، جو سی او 272 کے تحت قانون کے نظریہ سے غلط تھا۔ حالانکہ وہ مقصد 370(3) کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا تھا اور اس طرح سی او 273 کو جائز مانا جاتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined