تصویر سوشل میڈیا
نئی دہلی: نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ کے بعد اب حکمراں اتحاد ’این ڈی اے‘ اور حزب اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کے امیدواروں کے درمیان براہِ راست مقابلے کا میدان تیار ہو گیا ہے۔ نائب صدر کے عہدے کے لیے انتخاب 9 ستمبر کو منعقد ہوگا۔
راجیہ سبھا کے سیکریٹری جنرل، جو نائب صدر کے انتخاب کے لیے ریٹرننگ آفیسر ہوتے ہیں، نے بتایا کہ این ڈی اے کی جانب سے مہاراشٹر کے موجودہ گورنر سی پی رادھا کرشنن اور انڈیا اتحاد کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابق جج بی سدرشن ریڈی نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے تھے۔ جمعہ کے روز ان کاغذات کی جانچ مکمل کی گئی اور دونوں امیدواروں کے تمام چاروں سیٹ درست پائے گئے۔
Published: undefined
ریٹرننگ آفیسر کے دفتر کے مطابق نائب صدر کے انتخابی عمل کا آغاز 7 اگست کو باضابطہ نوٹیفکیشن کے اجرا سے ہوا تھا۔ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ 21 اگست مقرر تھی جبکہ جانچ کی تاریخ 22 اگست تھی۔ اس دوران مختلف افراد کی جانب سے بڑی تعداد میں کاغذات جمع کرائے گئے۔
سرکاری بیان کے مطابق 7 سے 21 اگست کے درمیان ریٹرننگ آفیسر کو کل 46 امیدواروں کی جانب سے 68 نامزدگی فارم موصول ہوئے۔ ان میں سے 19 امیدواروں کے 28 کاغذاتِ نامزدگی کو صدر اور نائب صدر کے انتخاب سے متعلق قانون 1952 کی دفعہ 5بی(4) کے تحت مسترد کر دیا گیا۔ جمعہ کو صبح 11 بجے جانچ کے دوران مزید 27 امیدواروں کے 40 نامزدگی فارم قانون کی دفعات 5بی(1)(ب) اور 5سی کے تحت ناقص قرار دیتے ہوئے مسترد کیے گئے۔
Published: undefined
بیان میں کہا گیا کہ جانچ کے بعد صرف دو امیدواروں کے کاغذات درست پائے گئے جنہیں قبول کر لیا گیا۔ ان میں این ڈی اے امیدوار سی پی رادھا کرشنن کے کاغذات نامزدگی نمبر 26، 27، 28 اور 29 اور انڈیا اتحاد کے امیدوار بی سدرشن ریڈی کے کاغذات نامزدگی نمبر 41، 42، 43 اور 44 شامل ہیں۔
اس طرح 9 ستمبر کو ہونے والے نائب صدر کے انتخاب میں اب براہِ راست مقابلہ صرف این ڈی اے اور انڈیا اتحاد کے امیدواروں کے درمیان ہوگا۔
Published: undefined
خیال رہے کہ نائب صدر کا عہدہ ملک کا دوسرا سب سے بڑا آئینی عہدہ ہے اور اس کا انتخاب ارکانِ پارلیمان کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ انتخاب کافی اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ دونوں بڑی سیاسی قوتیں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق این ڈی اے امیدوار کے پاس عددی برتری ہے، تاہم حزب اختلاف بھی متحد ہو کر سخت مقابلہ کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمان کے ایوانِ بالا کی سربراہی کے لیے ووٹروں کا رجحان کس جانب جاتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر قومی آواز / وپن