قومی خبریں

ٹرمپ انتظامیہ نے 4 یورپی بائیں بازو کے گروہوں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا

ٹرمپ انتظامیہ نے چار یورپی بائیں بازو کے گروہوں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا ہے۔ اقدام کا مقصد ان کے مالی نیٹ ورکس کو روکنا اور یورپ میں پھیلتی تشدد پسند سرگرمیوں پر سخت کارروائی کرنا ہے

<div class="paragraphs"><p>امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ / Getty Images</p></div>

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ / Getty Images

 
Chip Somodevilla

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یورپ میں سرگرم 4 بائیں بازو کے گروہوں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتے قدامت پسند کارکن چارلی کرک کے قتل کے بعد ملک میں بائیں بازو کے شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس اقدام کو یورپ اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی عہد شکن تشدد پسندی کا جواب قرار دیا ہے۔

Published: undefined

امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق یہ چاروں گروہ یورپ میں مختلف نوعیت کی تشدد آمیز اور مسلح کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں، اگرچہ ان کی براہ راست سرگرمیاں امریکہ کے اندر نہیں دیکھی گئیں۔ ان گروہوں میں سب سے نمایاں اطالوی انارکسٹ فرنٹ ہے، جو 2003 میں یورپی کمیشن کے اُس وقت کے صدر رومانو پروڈی کو دھماکہ خیز پارسل بھیجنے کے واقعے میں شامل رہا تھا۔ اس واقعے نے نہ صرف اٹلی بلکہ پورے یورپ میں سکیورٹی پر سوالات کھڑے کر دیے تھے۔

دوسرا اور تیسرا گروہ یونان میں فعال بتایا گیا ہے، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس ایتھنز میں پولیس ہیڈکوارٹر اور وزارتِ محنت کی عمارتوں کے باہر بم نصب کیے تھے۔ اگرچہ ان دھماکوں میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان نہیں ہوا تھا، مگر یونانی حکام نے ان کارروائیوں کو ملک کے سیاسی ڈھانچے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی ’منظم کوشش‘ قرار دیا تھا۔ یونان میں بائیں بازو کے ان گروہوں کی سرگرمیاں گزشتہ ایک دہائی میں بتدریج بڑھتی رہی ہیں، اور سکیورٹی ادارے مسلسل ان کی نگرانی کرتے رہے ہیں۔

Published: undefined

چوتھا گروہ جرمنی سے تعلق رکھتا ہے، جو فاشزم مخالف تشدد پسند نیٹ ورک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے ارکان پر الزام ہے کہ انہوں نے جرمنی میں کئی نیو نازی کارکنوں پر ہتھوڑوں سے حملے کیے۔ جرمن داخلی انٹیلی جنس کے مطابق یہ گروہ تنظیمی ڈھانچے یا بڑے نیٹ ورک کے بجائے سیل سسٹم کے ذریعے کام کرتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی سرگرمیوں کا سراغ لگانا نسبتاً مشکل ہے۔

امریکی انتظامیہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’انارکسٹ اور بائیں بازو کے شدت پسند گروہوں نے یورپ اور امریکہ کو براہ راست نشانہ بنایا ہے اور وہ اپنی پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے مغربی تہذیب کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔‘‘ ترجمان نے مزید کہا کہ نئے فیصلے کے بعد حکومت ان گروہوں کے مبینہ مالی نیٹ ورکس، ہتھیاروں کی رسائی اور ان کی بین الاقوامی روابط پر مؤثر طریقے سے روک لگا سکے گی۔

Published: undefined

فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد امریکی بینکوں اور مالیاتی اداروں پر لازم ہوگا کہ وہ ان گروہوں سے متعلق مشکوک مالی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کو سخت کریں۔ اس کے علاوہ امریکہ میں موجود ان کے کسی بھی ممکنہ رابطے یا اثاثے فوری طور پر منجمد کیے جا سکیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق عالمی سطح پر تشدد پسند نظریات کی روک تھام کے لیے یہ کارروائی ناگزیر تھی۔

یورپی حکام کی جانب سے ابتدائی ردعمل محتاط لیکن متوازن رہا ہے۔ بعض حکام نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا، جبکہ کچھ نے اس اقدام کو ’’سیاسی مفادات کے تناظر میں کیا گیا فیصلہ‘‘ قرار دیا۔ تاہم بیشتر تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں یورپ میں تشدد آمیز نظریات کے پھیلاؤ نے معاملات کو پیچیدہ ضرور بنایا ہے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہو چکا ہے۔

Published: undefined