جمہوریت کے ’تیرتھ‘ شاہین باغ میں مظاہرہ شروع ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اس اتوار ایک بار پھر لاکھوں لوگ اس ’تیرتھ‘ میں شامل ہونے اور اپنا احتجاج درج کرانے پہنچے۔ اس ’تیرتھ‘ یعنی شاہین باغ میں کوئی خدا نہیں، کوئی دیوتا نہیں، کوئی بھگوان نہیں... ہے تو بس لبوں پر آئین اور ہاتھوں میں ترنگا لیے خواتین۔ ابھی صبح سوشل میڈیا پر کسی نے ایک پوسٹ شیئر کیا جس میں کچھ سطریں لکھی ہوئی تھیں جو اس طرح ہیں...
Published: undefined
میں انقلاب میں شاہین باغ ہونا چاہتی ہوں
رنجشوں کے اس وقت میں
نفرتوں کی لاٹھیاں کھا کر
اس ملک کو توڑنے کی کوششوں کے اوپر
بس اتنی ہی تو خواہش ہے جاناں
میں انقلاب میں شاہین باغ ہونا چاہتی ہوں...
Published: undefined
ملک میں جمہوریت کے ’تیرتھ استھل‘ کا قیام ہو چکا ہے اور اس کا نام ہے شاہین باغ۔ یہ سچ ہے کہ اس تیرتھ میں نہ کوئی بھگوان ہے، نہ کوئی دیوتا۔ یہ کسی عبادت گاہ یا پوجا کی جگہ سے زیادہ پاک ہے۔ سماج کا ہر طبقہ اس تیرتھ کی تعمیر میں برابر کا شریک ہے، اور اس سماج کی قیادت کی ہے ان خواتین نے جنھیں ہندو ذات-پات سسٹم نے دلتوں اور شودروں کے بھی نیچے رکھا، جنھیں مسلم سماج نے سر سے پاؤں تک پردے میں قید کیا، جن کی حیثیت ایک ملکیت کی طرح ہو کر رہ گئی۔
Published: undefined
شاہین باغ کی ان خواتین نے سارے بندھن توڑ دیئے، ساری روایتوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنے اندر کے آتش فشاں کو بے حد صبر کے ساتھ اور منظم طریقے سے اس طرح پیش کیا ہے کہ جمہوریت اور سیکولرزم میں بھروسہ کرنے والوں کے سر شاہین باغ نام کے تیرتھ پر خود بہ خود جھک رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو گیا، کیوں ہو گیا، سماج کے دانشور حضرات سوچتے رہے کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کیا قدم اٹھایا جائے، اور شاہین باغ میں ایک انقلاب شروع ہو گیا۔
Published: undefined
اقتدار سے ٹکرانے کا جنون لیے ان خواتین نے ان سبھی زنجیروں کو توڑ دیا ہے جن میں یہ آج تک قید رہیں۔ دلوں میں فولادی ارادے لیے خواتین اب سسٹم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اسے اس کی اوقات بتا رہی ہیں۔ ان کے حوصلے توڑنے کی کوششیں بھی لگاتار جاری ہیں، کبھی پولس کی دھمکی کے ذریعہ اور کبھی جنوب پنتھیوں کی افواہوں اور فیک نیوز کے ذریعہ، لیکن ان خواتین نے ہر اس سازش کو منہدم کر دیا ہے جو ان کے انقلاب میں سیندھ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے پردے کے ساتھ ہی ان خواتین نے حکومت کے اس نقاب کو بھی نوچ پھینکا ہے جو اس نے تین طلاق کے ایشو پر اپنے چہرے پر چڑھا لیا تھا۔
Published: undefined
اتوار (19 جنوری) کو ایک بار پھر شاہین باغ ایک لاکھ سے زیادہ جمہوریت پسندوں اور آئین پر بھروسہ رکھنے والے لوگوں کا گواہ بنا۔ اس اتوار صرف گھروں میں قید رہیں پردہ نشین خواتین ہی نہیں تھیں، راجدھانی کے پوش جنوبی علاقے کی امیر گھرانے کی عورتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ جنوبی دہلی کی خواتین ان خواتین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھیں جنھیں کل تک غیر مرد کی موجودگی میں اپنے ہی گھر میں سامنے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب یہ خواتین چوراہے پر کھڑی ہو کر مردوں کو راستہ بتا رہی ہیں، آئین کے معنی سمجھا رہی ہیں، مرکزی حکومت کی نیت کو بے پردہ کر رہی ہیں۔ چہرے پر ترنگے کی چھاپ اور پیشانی پر اشوک چکر باندھے یہ خواتین ان سبھی کو راستہ دکھا رہی ہیں جو اب تک خاموش تھے۔ ان خواتین نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب اقتدار کے رحم و کرم پر جینے والی نہیں بلکہ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر ہاتھ میں آئین لیے اپنا حق چھیننے کی آگ دل میں بھرے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
برسوں پہلے مزاج لکھنوی نے لکھا تھا...
تیرے چہرے پر یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل کو اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
Published: undefined
ان خواتین نے اب اپنے آنچل کو پرچم بنا لیا ہے اور آئین سے ملے اختیارات کو حاصل کرنے کے لیے، اپنی حفاظت کے لیے، اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بے حس نظام کے سینے پر ترنگا گاڑ دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم