قومی خبریں

قرآن کریم کی حفاظت کرنے والا خود اللہ ہے: مولانا ارشد مدنی

رمضان کے مہینہ میں رسول اللہ ﷺ اتنی مقدار میں دور کیا کرتے تھے کہ ایک قرآن مکمل ہو جاتا تھا، جو آخری رمضان گزرا اس میں 2 دور ہوئے، 23 سالہ دور نبوت میں جبرئیل امین کے ساتھ 24 مرتبہ قرآن کا دور ہوا ہے۔

قرانِ کریم / علامتی تصویر / Getty Images
قرانِ کریم / علامتی تصویر / Getty Images 

اللہ کی کتابیں جو اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے دنیا میں اتاری ہیں اور وہ پڑھی پڑھائی جاتی بھی ہیں وہ تین ہیں: ’’تورات‘‘ ’’انجیل‘‘ اور قرآن شریف، چوتھی کتاب جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ ’’زبور‘‘ ہے، لیکن اب اس کو پڑھنے پڑھانے والی کوئی امت لگتا ہے کہ زمین پر نہیں ہے، جس طرح ’’تورات‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور ’’انجیل‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی اسی طرح ’’قرآن کریم‘‘ حضرت محمد علی نبینا وعلیہم الصلاۃ والسلام کو دیا گیا، پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگرچہ تینوں مذکورہ کتابیں اللہ کی بھیجی ہوئی کتابیں ہیں اور ’’یہود‘‘ ’’عیسائی‘‘ اور مسلمان تینوں امتیں ان کو اپنے سر اور آنکھوں پر رکھتے ہیں، لیکن مسلمانوں کو جتنا والہانہ تعلق اور شغف اپنی کتاب قرآن شریف سے ہے ’’یہود‘‘ اور ’’عیسائی‘‘ امتوں کو اپنی کتاب سے نہیں ہے، چنانچہ دنیا میں صرف قرآن ہی کے حافظ مسلمان ملتے ہیں تورات، وانجیل کے حافظ یہود ونصاریٰ نہیں۔

Published: undefined

دوسری کتابوں کے مقابلہ میں قرآن کریم کا امتیاز یہ بھی ہے کہ تورات و انجیل لکھی لکھائی کتابیں اتاری گئیں، لیکن قرآن حسب ضرورت ایک ایک دو دو آیتیں حضرت محمد ﷺ پر حکمتِ خداوندی کے مطابق 23؍ سال میں اتارا گیا ہے اور آپ ﷺ کچھ متعین صحابہ کو جو لکھنا جانتے تھے ان کو بلا کر لکھا دیتے تھے، جو ایک جگہ اللہ کے نبی ﷺ کی ہدایت پر محفوظ رہتا تھا، لیکن چونکہ وحی آنے کا اور اللہ کی طرف سے قرآن کریم لانے کا کوئی وقت متعین نہیں تھا، سفر میں رہتے ہوئے بھی قرآن کی آیتیں اور احکام آتے رہتے تھے اس لئے کسی ایک چیز پر لکھا ہوا نہیں تھا، کچھ قرآن سفید پتھروں پر، کچھ کھجور کے درخت کے پھٹوں پر اور کچھ سوکھی جھلی پر لکھا ہوا تھا، جہاں جس وقت جو چیز میسر ہو گئی اس پر لکھ کر محفوظ کر لیا گیا۔

Published: undefined

پھر چونکہ قرآن کی آیتیں نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس فرشتہ لے کر آتا تھا اس لئے وہ آپ کے سینہ میں محفوظ رہتا تھا آپ کے سوا کوئی اور اس کو نہیں جانتا تھا اس لئے قرآن کے سب سے پہلے معلم اور پڑھانے والے آپ ہی تھے اور ابتداء صحابہ نے آپ ہی سے قرآن اور اس کے معانی سیکھے اور آپ ہی نے پڑھائے، کچھ صحابہ ایسے ماہر ہو گئے کہ خود نبی کریم علیہ السلاۃ والسلام نے ان کی مہارت کا اعلان کر دیا، گویا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں کو اس طرف متوجہ فرما دیا کہ میرے بعد یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کے ماہر ہیں، جن کو قرآن سیکھنا ہے ان سے سیکھیں، یہ لوگ بھی قرآن کے الفاظ اور معنیٰ کو جاننے میں میرے معتمد علیہ ہیں۔

Published: undefined

یہ بے شمار صحابہ جنھوں نے قرآن خود اللہ کے رسول ﷺ سے سیکھا تھا نمازوں میں اور خاص طور پر رات کی تاریکی اور اندھیروں میں حضرت محمد ﷺ کی تعلیم اور طریقہ کے مطابق پڑھا کرتے تھے اور روزانہ جہری نمازوں میں حضرت محمد ﷺکی زبان مبارک سے قرآن سنا کرتے تھے، اور خاص طور پر رمضان کے مبارک مہینہ میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خود نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا قرآن شریف پڑھنا، بہت زیادہ بڑھا جاتا تھا، بلکہ ہر رمضان کے مہینہ میں جبرئیل امین ’’فرشتہ‘‘ رسول اللہ ﷺکے پاس روزانہ آتا تھا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دونوں قرآن کی اتنی مقدار کا دور کیا کرتے تھے کہ پورے مہینہ میں ایک قرآن مکمل ہو جاتا تھا اور جو آخری رمضان گزرا ہے اس میں دو دور ہوئے اور دو قرآن ختم ہوئے، جس کا مطلب ہے کہ 23؍ سالہ دور نبوت میں جبرئیل امین کے ساتھ چوبیس مرتبہ دور ہوا ہے، یہ سارا پروگرام اللہ کی طرف سے اللہ کے اس وعدہ کو پورا کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا جس کو سورۃ نمبر 15؍ کی آیت نمبر9؍ میں کیا گیا تھا۔

Published: undefined

’’ہم نے خود اتارا ہے یہ قرآن اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘ (قرآن)

یہاں ایک اور چیز بھی قابل توجہ ہے کہ رہتی دنیا تک مسلمانوں کا جو طبقہ اپنے دلوں میں سب سے زیادہ خشیتِ خداوندی رکھنے والا ہے سب سے زیادہ اسلام پر مرنے مٹنے والا ہے سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺسے محبت رکھنے والا ہے اور براہ راست بلا واسطہ رسول خدا سے قرآن اور دین کو لینے والا اور سمجھنے والا ہے وہ طبقۂ صحابہ ہے رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

Published: undefined

یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب آج چودہ سو سال کے بعد دنیا کی محبت کا مارا مسلمان اللہ کی کتاب قرآن سے بمقابلہ دوسری کتب خداوندی کو ماننے والوں کے بہت زیادہ شغف اور عقیدت رکھتا ہے، تو اُس زمانہ میں صحابہؓ کو قرآن سے کتنا شغف اور محبت ہوگی جس قرآن کے آج پوری دنیا میں کروڑوں مسلمان حافظ ہیں تو اس وقت کتنے صحابہ قرآن کے حافظ ہوں گے اور رات دن قرآن کی تلاوت کرکے رحمت خداوندی کی قربت حاصل کرتے ہوں گے؟۔

Published: undefined

محدثین لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 11ھ جنگ یمامہ میں حفاظ صحابہ کم وبیش 700؍ شہید ہوئے ہیں جس کے بعد اللہ نے سب سے پہلے حضرت عمرؓ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اگر اسی طرح حفاظ قرآن اسلام کی بقاء کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے تو قرآن کا محفوظ رہنا، کہیں مشکل نہ ہو جائے تب انھوں نے خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ سے فرمایا کہ قرآن کی حفاظت اگرچہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے زمانہ میں کرا دی ہے اور وہ مختلف چیزوں پر لکھا ہوا آپ کے در دولت میں محفوظ بھی ہے، لیکن اس کو مزید حفاظت کے پیش نظر کتابی شکل میں جمع کرا دینا زیادہ ضروری معلوم ہو رہا ہے، یہ سجھاؤ اولِ وہلہ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے قبول نہیں کیا اور یہ فرماتے رہے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانہ میں نہیں کیا اس کو ابو بکر کیسے کرے، لیکن حضرت عمرؓ کے دل کو اللہ نے اس چیز کے لئے منشرح فرما دیا تھا، اس لئے وہ برابر اصرار کرتے رہے یعنی دلائل کو پیش فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے خلیفۂ اول کے مبارک سینہ کو بھی خلیفہ ثانی کی رائے پر منشرح فرما دیا، پھر ان دونوں نے حضرت زید بن ثابت انصاریؓ کو اصرار کرکے رسول اللہ ﷺ کے در دولت میں جمع کردہ قرآن کریم کو کتابی شکل میں یکجا جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی اور فرمایا کہ اللہ کے رسول کا آپ پر کلی اعتماد اور بھروسہ تھا، کیونکہ آپ کاتب وحی تھے اللہ کے نبی پر فرشتہ جو قرآن کی آیتیں لاتا تھا رسول اللہ ﷺ زیادہ تر اس کو آپ سے لکھواتے تھے اس لئے ہم بھی آپ پر اعتماد کرتے ہیں۔

Published: undefined

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بے شمار صحابہؓ کے سینوں میں قرآن کریم موجود ہے اور جو لوگ لکھنا جانتے ہیں وہ اس کو لکھ کر بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے، چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنی یاداشت اور صحابہ ؓ کے سینوں میں محفوظ اور مختلف چیزوں پر لکھا ہوا نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے در دولت میں محفوظ رکھے ہوئے قرآن کو ملا کر اور صحابہ سے ایک ایک آیت کو سن سن کر پوری احتیاط کے ساتھ کتابی شکل میں جمع کر دیا۔

Published: undefined

اس وقت تک قرآن کریم کے حافظ اگرچہ بے شمار صحابہ اور تابعین تھے لیکن کتابی شکل میں لکھا ہوا پورے قرآن کا یہی ایک نسخہ تھا جو حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی زیر نگرانی رسول اللہ ﷺ کے جمع کرائے ہوئے قرآن سے اور صحابہ کے سینوں میں محفوظ ایک ایک آیت کو اس سے ملا کر محفوظ کیا گیا تھا اور 23؍ سال تک جس کو رسول اللہ کی زبان مبارک سے سنتے سناتے اور خود پڑھتے پڑھاتے آرہے تھے۔

Published: undefined

اس کتابی شکل میں اصل سے نقل کیے ہوئے نسخہ کو پھر اللہ کے نبی کے در دولت میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ کر دیا گیا، باقی قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ ان قرآن کے حافظ ہزاروں صحابہ اور تابعین سے چلتا رہا جنھوں نے قرآن کی تعلیم ہی کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنایا تھا اور اسی کو وہ اپنی دنیا اور آخرت کا سب سے مبارک اور مقبول مشغلہ جانتے تھے، کیونکہ اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ یہ پیغام دے کر دنیا سے گئے تھے۔

’’تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس نے قرآن کو پڑھا اور پڑھایا‘‘۔

Published: undefined

اس لئے ایک جماعت نے قرآن کے پڑھنے اور پڑھانے ہی کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا تھا یہاں تک کہ کم وبیش دو سال اور 6 ماہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا دور خلافت گزرا اور اس کے بعد کم وبیش 10؍ سال حضرت عمرؓ کا دور خلافت گزرا اور اسی طرح مسلمان لاکھوں کی تعداد میں قرآن سیکھتے اور سکھاتے رہے، یہاں تک کہ حضرت عثمان غنیؓ کا زمانہ آیا اور ان کی خلافت کا زمانہ کم وبیش 12؍ سال ہے، انھوں نے اپنے زمانہ میں اسکندریہ، سابور، افریقہ، قبرص، روم، کے ساحلی علاقے، فارس، خوزستان، طبرستان، کرمان، سجستان وغیرہ کو فتح کیا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کے معاملات اور اخلاق کو دیکھ کر اور برت کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تو مختلف اسباب کے پیش نظر اس کی ضرورت پڑی کہ قرآن کے مختلف نسخے دنیا کے مختلف ملکوں کو بھیجے جائیں، تاکہ وہاں کے مسلمان قرآن کو سیکھ سکیں کیونکہ اسلام کی بنیاد یہی کتاب الہٰی ہے انسان اس کو زندگی میں اتارے بغیر مکمل اللہ کی بندگی کا نمونہ نہیں بن سکتا، چنانچہ کم وبیش 18؍ یا 19؍ سال کے بعد حضرت عثمانؓ نے قرآن شریف کے اس پرانے نسخہ کو جو نبی کریم ﷺ کے در دولت میں محفوظ تھا ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگوایا، اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ ہی کو یہ ذمہ داری دو بارہ دی، کیونکہ انھوں نے پہلی مرتبہ کتابی شکل میں قرآن کو جمع کرنے میں جو نہایت محتاط طریقہ اپنایا تھا وہ بہت قابل اعتماد تھا اور بالخصوص امت محمدیہ میں سب سے بلند وبرتر یعنی ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کا پسندیدہ طریقہ تھا، اور ان کے ساتھ مزید تین قریشی صحابہ کو بھی لگایا تاکہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام جس طرح قرآن کی تلاوت فرماتے تھے اسی طرح جمع کرنے میں ان کی مدد کریں، انھوں نے اس مرتبہ بھی قرآن کو کتابی شکل دینے میں وہی طریقہ دوبارہ اپنایا جو پہلے اپنایا تھا۔

Published: undefined

اس بات کو یہاں ذہن نشین کرنا چاہیے کہ رسول اللہﷺ کو دنیا سے گئے ہوئے اگرچہ کم وبیش 20؍ سال گزر گئے تھے، لیکن اسلام جنگل کی آگ کی طرح دنیا میں پھیل رہا تھا، پوری پوری قومیں اور ملک حلقہ بگوش اسلام ہو رہے تھے، بڑے بڑے صحابہ اور تابعین جگہ جگہ قرآن پڑھا رہے تھے اور لاتعداد لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور لاکھوں ایسے لوگوں کے سینوں میں قرآن محفوظ تھا جنھوں نے خود نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام سے قرآن سیکھا تھا یا ان کے شاگردوں سے قرآن پڑھا تھا اور اپنی زندگی میں اتارا تھا، ایسے ماحول میں حضرت عثمان غنیؓ نے قرآن شریف کے چند نسخے نہایت محتاط انداز میں تیار کرائے اور ان کو شام، کوفہ، بصرہ وغیرہ میں بھیج دیا اور ایک نسخہ مدینہ منورہ میں محفوظ رکھا گیا اور جو پہلا نسخہ تھا اس کو ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیا گیا۔

Published: undefined

یہ قرآن کریم کی حفاظت کی ایک مختصر سی تاریخ ہے جو بخاری شریف وغیرہ معتبر حدیث کی کتابوں سے لی گئی تو کیا قرآن سے گرویدگی کے اس ماحول میں اور امت کے سب سے زیادہ معتبر لوگوں کی موجودگی میں کوئی آدمی دعویٰ کر سکتا ہے کہ قرآن شریف میں حضرت عثمان غنیؓ نے کمی اور زیادتی کی ہے، اگر یہ دعویٰ لچر بوگس اور بے بنیاد نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟

Published: undefined

یہ سوچنا چاہیے کہ آج جب کہ دنیا میں کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں قرآن محفوظ ہے، اگر آج اسلام کا کوئی دشمن قرآن میں کمی زیادتی کر ڈالے، کسی ایک آیت کی جگہ اپنی طرف سے بنا کر دوسری آیت رکھدے یا قرآن کی آیت کی جگہ کو تبدیل کر دے تو کیا وہ کامیاب ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں ہو سکتا اور یقینا نہیں ہو سکتا تو اس زمانہ میں کیسے ہو سکتا تھا جب کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زندہ تھے اور رسول اللہﷺ پر اتاری ہوئی اللہ کی کتاب پر زندگی کو ڈھالنا اور پڑھنا پڑھانا ان کا سب سے پسندیدہ عمل تھا۔

Published: undefined

حضرت عثمانؓ پر قرآن کریم میں کمی زیادتی کا الزام لگانے والے یہ نہیں سوچتے کہ اگر یہ الزام صحیح مانا جائے تو اول تو اللہ پر الزام آتا ہے کہ اس نے جو وعدہ سورۃ نمبر15؍ آیت نمبر9؍ میں قرآن کی حفاظت کا کیا تھا وہ اس کو پورا نہ کر سکا، اور حضرت عثمان کے سامنے اللہ بے بس ہوگیا۔ (العیاذ باللہ)

Published: undefined

دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ اور بعد کے اماموں کا زمانہ آتا ہے جو اسی قرآن کو پڑھتے پڑھاتے رہے اور قرآن کی تصحیح نہیں کر سکے، میں نہیں سمجھتا کہ اہل بیتؓ پر اس سے بڑا کوئی الزام لگایا جا سکتا ہے، اس لئے قرآن کریم میں نہ کوئی تغیر ہوا ہے اور نہ قیامت تک ہوگا، کمی زیادتی کا دعویٰ کرنے والا اپنی جہالت کا ثبوت دے رہا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں… اسی کو 12؍ اپریل 2021میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے ABSOLUTELY FRIVOLOUS لچر اور بے بنیاد کہا ہے۔

Published: undefined

(مضمون مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علما ہند کی کتاب ’’قرآن کی کسی آیت یا لفظ کو قرآن سے نکالنے کا دعویٰ سپریم کورٹ کی نظر میں ABSOLUTELY FRIVOLOUS بے بنیاد لچر ہے‘‘ سے ماخوذ)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined