سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک اہم آئینی فیصلے میں کہا ہے کہ درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی اپنے بھائیوں کی طرح آبائی جائیداد میں برابر کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ اس برادری میں وراثت سے متعلق کوئی واضح یا مروجہ روایت موجود نہ ہو۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت مساوات کے اصولوں کو بنیاد بناتے ہوئے یہ فیصلہ دیا۔
Published: undefined
جسٹس سنجے کرول اور جسٹس جوئے مالیہ باگچی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے یہ فیصلہ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سنایا، جنہوں نے گونڈ قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون دھیا کے قانونی وارثوں کی وراثت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
کیس کی تفصیل کے مطابق، دھیا نامی قبائلی خاتون کے وارثوں نے اپنے نانا بھجن گونڈ کی جائیداد میں برابر کا حصہ مانگا تھا، مگر مخالف فریق نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا، جس کے بعد قانونی چارہ جوئی کا آغاز ہوا۔ ماتحت عدالت نے 2008 میں مقدمہ خارج کرتے ہوئے کہا کہ وکیل یہ ثابت نہیں کر سکے کہ گونڈ برادری میں بیٹیوں کو وراثت میں حق ملتا ہے، اور چونکہ ہندو وراثتی قانون 1956 کی دفعہ 2(2) درج فہرست قبائل پر لاگو نہیں ہوتی، اس لیے یہ دعویٰ ناقابل قبول ہے۔
Published: undefined
یہ فیصلہ پہلی اپیل اور پھر چھتیس گڑھ ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا، جس پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے وارثوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے تفصیلی تجزیے کے بعد ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر سخت تبصرہ کیا اور کہا کہ ابتدائی طور پر یہ مفروضہ قائم کر لینا کہ عورت کو حق نہیں ہے، ایک ’’پدرانہ تعصب‘‘ کی عکاسی کرتا ہے۔
عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ اگر نہ تو کوئی واضح روایت شامل ہونے کی ہے اور نہ ہی کوئی روایتی بنیاد اخراج کی، تو ایسے میں عدالت کو انصاف، مساوات اور سماجی ہم آہنگی جیسے آئینی اصولوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ بنچ نے مزید کہا کہ 1875 کا ’سینٹرل پروونسز لا ایکٹ‘ اگرچہ منسوخ ہو چکا ہے لیکن اس کا اطلاق خاتون کے حق پر اثرانداز نہیں ہوتا کیونکہ ان کا حق والد کی وفات کے وقت ہی قائم ہو گیا تھا۔
Published: undefined
عدالت نے مشہور مقدمہ ’مینکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا‘ اور رام مندر کیس میں دیے گئے آئینی اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب قانونی ڈھانچہ خاموش ہو تو عدالتیں آئینی مساوات کا سہارا لے سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ کسی خاتون وارث کو صرف صنفی بنیاد پر وراثت سے محروم کرنا آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس میں مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور خواتین کو کوئی قانونی جواز دیے بغیر خارج کیا جاتا ہے۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا، ’’ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ انصاف، مساوات اور سماجی ہم آہنگی کے اصول، جب آئین کے آرٹیکل 14 کے ساتھ پڑھے جائیں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ دھیا کے وارث آبائی جائیداد میں برابر کے حق دار ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹ کے فیصلے منسوخ کرتے ہوئے متاثرہ فریق کے حق میں فیصلہ سنایا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined