قومی خبریں

قانون کی غلط تشریح پر سپریم کورٹ برہم، الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کو فوجداری مقدمات سے الگ کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے قانون کی غلط تشریح پر الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس پرشانت کمار پر برہمی ظاہر کی اور ہدایت دی کہ وہ فوجداری مقدمات کی سماعت نہ کریں

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / الٰہ آباد ہائی کورٹ</p></div>

سپریم کورٹ / الٰہ آباد ہائی کورٹ

 

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس پرشانت کمار کے ایک فیصلے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف سخت ریمارکس دیے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے واضح ہدایت دی کہ جسٹس پرشانت کمار کو آئندہ فوجداری مقدمات کی سماعت نہ دی جائے اور انہیں کسی سینئر جج کے ساتھ ڈویژن بنچ میں شامل کیا جائے۔

Published: undefined

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک شخص نے اپنے خلاف درج فوجداری شکایت کو منسوخ کرنے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ مدعی کمپنی نے الزام لگایا تھا کہ اس نے دھاگا سپلائی کیا لیکن سات لاکھے روپے سے زیادہ کی رقم ادا نہیں کی گئی۔ ہائی کورٹ نے فوجداری کارروائی کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ مدعی ایک چھوٹا کاروباری ہے اور دیوانی مقدمہ مہنگا و وقت طلب ہوتا ہے، اس لیے فوجداری راستہ اپنانا انصاف کے حق میں ہے۔

Published: undefined

لائی لا کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے جسٹس پرشانت کمار کی اس دلیل کو فوجداری قانون کی سنگین غلط تشریح قرار دیا۔ جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کہا، ’’یہ سمجھنا کہ فوجداری مقدمے کے ذریعے بقایا رقم وصول کی جا سکتی ہے، نہ صرف غلط ہے بلکہ قانون کی بنیادی فہم کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ یہ تصور ہی ناقابل قبول ہے کہ فوجداری کارروائی کو دیوانی عمل کا متبادل بنایا جائے، خاص طور پر صرف اس بنیاد پر کہ دیوانی مقدمہ سست ہوتا ہے۔

Published: undefined

بنچ نے بغیر نوٹس جاری کیے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا اور معاملہ کسی دوسرے جج کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درج ذیل ہدایات پر عمل کی سفارش کی، جسٹس پرشانت کمار کو فوجداری مقدمات کی سماعت سے فوری طور پر ہٹا دیا جائے۔ انہیں کسی تجربہ کار سینئر جج کے ساتھ ڈویژن بنچ میں شامل کیا جائے۔ اگر وہ سنگل بنچ پر بیٹھیں تو انہیں کوئی فوجداری مقدمہ نہ دیا جائے۔

Published: undefined

یہ واقعہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ عدالت عظمیٰ قانون کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے والے فیصلوں کے خلاف زیرو ٹالرنس رکھتی ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق، یہ فیصلہ مستقبل میں ججوں کے لیے ایک سبق ہوگا کہ وہ فوجداری اور دیوانی قوانین کے فرق کو سمجھتے ہوئے فیصلے صادر کریں۔

Published: undefined