قومی خبریں

کیسے غائب ہو گئے 31 پہاڑ، لوگ ہنومان ہو گئے کیا؟ سپریم کورٹ کا سوال

اراولی کی پہاڑیوں پر چل رہی کانکنی پر سپریم کورٹ نے سخت رویہ اختیار کر لیا ہے، عدالت عظمی نے اسے روکنے کے لئے 48 گھنٹے کا وقت دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سپریم کورٹ نے راجستھان میں اراولی کی پہاڑیوں پر اندھا دھند چل رہی کانکنی پر سخت رُخ اختیار کرتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے 48 گھنٹوں کے اندر تمام کھدانوں اور کانکنی کو روکنے کا حکم دیا ہے اور اگلے پیر تک حکم کی تعمیل کی رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس مدن بی لوکر نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق دہلی، راجستھان اور ہریانہ کی سرحد وں سے 31 پہاڑ کیسے غائب ہو گئے ہیں۔ لوگوں میں ہنومان جیسی طاقت تو نہیں آ سکتی کہ وہ پہاڑ کو اٹھا لے جائیں ۔ ایسے میں یہ صاف ہو جاتا کہ اس علاقے میں غیر قانونی کان کنی کی جارہی ہے، ۔ عدالت عظمیٰ کے پوچھنے پر راجستھان حکومت نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اراولی میں 115.34 ہیکٹیئر زمین پر کان کنی کی گئی ہے۔

عدالت عظمی نے اس رد عمل پر کہا کہ آپ (راجستھان حکومت) اسٹاف کی کمی کا بہانہ بناکر خود کچھ نہیں کرتے اور مرکزی حکومت کچھ کرتی ہے تو آپ کو دقت ہوتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ پہاڑ ہمارے فطری محافظ ہیں۔ وہ راجستھان کے صحرا کی ریت یا آلودگی کو دہلی آنے سے روکتے ہیں لیکن آپ نے سالانہ ساڑھے پانچ ہزار کروڑ رائلٹی کے چکر میں دہلی این سی آر کے لاکھوں لوگوں کی جان خطرے میں ڈال دی۔ آپ پر اس کا کوئی اثر بھی نظر نہیں آتا۔

Published: 24 Oct 2018, 1:09 PM IST

سپریم کورٹ کے رخ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ تشویش کا موضوع ہے کہ سپریم کورٹ نے راجستھان حکومت سے 48 گھنٹوں کے اندر غیرقانونی کان کنی روکنے کی ہدایت دی ہے، سپریم کورٹ کا تبصرہ ہے کہ وہ حکم جاری کرنے کے لئے مجبور ہیں کیوں کہ راجستھان حکومت نے اس ایشو کو ہلکے میں لیا ہوا ہے۔

Published: 24 Oct 2018, 1:09 PM IST

گہلوت نے مزید کہا کہ حکومت غیر قانونی کانکنی روکنے میں پوری طرح سے ناکام رہی ہے۔ ریاست میں پہاڑیوں کا غائب ہونا خطرناک صورت حال ہے۔ میں لگاتار کہتا رہا ہوں کہ ریت مافیہ، کانکنی مافیہ کا نیٹورک بڑی بدعنوانی کی وجہ سے فعال ہے۔ انہیں سیاسی پشت پنائی ہے اور اس کا پیسہ اوپر تک پہنچ رہا ہے۔

Published: 24 Oct 2018, 1:09 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 24 Oct 2018, 1:09 PM IST