قومی خبریں

ملک بھر کے دیہی ڈاک خانے ٹھپ، مودی حکومت کی آنکھیں بند

ملک بھر کے سوا لاکھ سے زائد دیہی ڈاک خانوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے کام کاج ٹھپ ہے، پونے تین لاکھ ڈاک ملازمین مستقلی کا مطالبہ لے کر ہڑتال پر ہیں لیکن مودی حکومت نے ان سے بات کرنے کی کوشش تک نہیں کی ہے۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر/<a href="https://twitter.com/vinodjose">@vinodjose</a>
تصویر بشکریہ ٹوئٹر/@vinodjose 

ملک بھر کے دیہی علاقوں میں تقریباً 270000 ڈاک ملازمین گزشتہ ایک ہفتے سے ہڑتال پر ہیں لیکن مرکزی حکومت کانوں میں تیل ڈال کر بیٹھی ہے۔ یہ ملازمین کملیش چندرا کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر انہیں سرکاری ملازم کے طور پر مستقل کئے جانے کا مطالبہ کر ہے ہیں۔ اس کمیٹی نے نومبر 2016 کو اپنی سفارشات مرکزی حکومت کو سونپ دی تھیں۔

’گرامین ڈاک سیوک‘ کے بینر تلے 22 مئی کو شروع ہوئی یہ ہڑتال منگل کو آٹھویں دن میں داخل ہو گئی ہے۔ آل انڈیا پوسٹل ایملائیز یونین کا الزام ہے کہ ابھی تک مودی حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ ہڑتال کے سبب ملک بھر کے تقریباً 129000 دیہی ڈاک خانے ٹھپ پڑے ہیں۔ ہڑتالی ملازمین کا کہنا ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ کام پر نہیں لوٹیں گے۔

دیہی ڈاک سیوک وہ غیر محکماتی ایجنٹ ہوتے ہیں جو دیہی علاقوں میں ڈاک خدمات مہیا کراتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی دیگر ڈاک ملازمین کی طرح تنخواہ اور سہولیات فراہم کی جائیں۔

Published: 30 May 2018, 10:20 AM IST

ڈاک سیوکوں کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے مرکزی حکومت نے ساتویں تنخواہ کمیشن میں ایک رکنی کمیش چندرا کمیٹی تشکیل دے کر دیہی علاقوں میں ڈاک خدمات دینے والے ایجنٹوں کے مطالبات کی بنیاد پر سفارشات دینے کو کہا تھا۔ کمیٹی کو ڈاک سیوکوں کی تنخواہ کی بے ضابطگیاں، سہولیات اور سوشل سیکورٹی کا مطالعہ کر کے اپنی رپورٹ دینی تھی۔

کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھیں کہ دیہی ڈاک افسران کو کم از کم 10 ہزار اور 35480 روپے تنخواہ دینے کے ساتھ نوکری میں 50 سال کی حد کو ختم کر دیا جائے۔ کمیٹی نے تنخواہ میں سالانہ 3 فیصد اضافے اور بچوں کی تعلیم کے لئے سالانہ 6 ہزار روپے بھتہ دینے کی بھی سفارش کی تھی۔ اس کے علاوہ خصوصی علاقوں میں کام کرنے کے لئے 500 روپے ماہانہ کا اضافی بھتہ دینے کا بھی التزام کرنے کی سفارش کی تھی۔ کمیٹی نے عبوری راحت کے طور پر دئیے جانے والے فنڈ کو بھی 60 ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کرنے کو کہا تھا۔

ہڑتالی یونین کے جنرل سکریٹری پی پانڈورنگ راؤ کا کہنا ہے کہ، ’’حکومت ہمیں کچھ بھی دینے کو تیار نہیں ہے، اس لئے ہم نے ہڑتال کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے سفارشات لاگو کرنے کے لئے 3 ماہ کے وقت کی بات کی تھی، لیکن 18 مہینے گزر جانے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا، ایسے حالات میں ہمیں حکومت پر بھروسہ نہیں ہے۔

Published: 30 May 2018, 10:20 AM IST

پانڈو رنگ راؤ نے بتایا کہ، ’’سرکاری ملازمین ہونے کے باوجود ہماری حالت یومیہ مزدور سے بدتر ہے۔ ہمیں کوئی سبسڈی نہیں ملتی، کوئی فائدہ نہیں ملتا، ہم محض معمولی تنخواہ پر کام کرتے رہے ہیں۔ ہمیں دفتر کے لئے عمارت اور بجلی بل جیسی بنیادی سہولیات بھی نہیں دی جا رہیں۔‘‘

حالانکہ گرامین ڈاک سیوک سرکاری ملازمین ہوتے ہیں لیکن حکومت انہیں غیر مستقل ملازم تصور کرتی ہے اور مختلف اسکیموں سے انہیں محروم رکھا جاتا ہے۔ پانڈو رنگ راؤ کے مطابق، ’’30-40 سال کام کرنے کے بعد بھی ہمیں ریٹائر ہونے پر محض ایک لاکھ روپے دئیے جاتے ہیں، ہماری یومیہ تنخواہ 300 روپے کے آس پاس ہے اور تنخواہ میں محض 50-60 روپے کا سالانہ اضافہ کیا جاتا ہے۔‘‘

وہیں آل انڈیا ڈاک ملازمین یونین کے صدر ویریندر شرما کا کہنا ہے کہ، ’’اس تعلق سے حکومت سے کم از کم 5 مرتبہ بات ہوئی ہے لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا،‘‘ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ یکم جون کو وہ وزرات برائے مواصلات کے باہر مظاہرہ کریں گے۔

Published: 30 May 2018, 10:20 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 30 May 2018, 10:20 AM IST