قومی خبریں

جبریہ تبدیلی مذہب اور لو جہاد کے نظریے کو مسترد کرنے والی قابل ذکر رپورٹ... سہیل انجم

یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ ہندوستان میں دوسرے مذاہب میں شادیوں کی شرح انتہائی معمولی ہے اور یہ کہ جبراً تبدیلی مذہب کرانے کے الزامات بھی بے بنیاد ہیں

پیو ریسرچ سینٹر
پیو ریسرچ سینٹر 

گزشتہ دنوں سروے کرنے والی ایک بین الاقوامی امریکی ایجنسی ’’پیو ریسرچ سینٹر‘‘ نے ہندوستان میں مذہبی صورت حال اور بین المذاہب شادیوں کے سلسلے میں ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی شہریوں کی اکثریت دوسرے مذاہب کا بہت احترام کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ اپنے مذہب پر چلنے اور دوسروں کو بھی اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی آزادی دینے کے حق میں ہے۔ البتہ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسرے مذاہب میں شادیاں نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ اس سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

Published: undefined

آئیے پہلے اعداد و شمارپر نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 98 فیصد ہندوستانی اسی مذہب کو مانتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے۔84 فیصد شہری محسوس کرتے ہیں کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جانا چاہیے۔ تمام بڑے چھ مذاہب ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ، بودھ اور جین کے پیروکاروں کا خیال ہے کہ انھیں اور دوسروں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف صفر اعشاریہ سات فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی ایک ہندو کے طور پر پرورش ہوئی مگر اب وہ دوسرے مذہب کو مانتے ہیں۔ صفر اعشاریہ آٹھ فیصد کا کہنا ہے کہ ان کی پرورش ایک ہندو کے طور پر نہیں ہوئی لیکن اب وہ ہندو ہیں۔ صرف صفر اعشاریہ چار فیصد ہندو اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائی بنے ہیں۔ جب کہ صفر اعشاریہ ایک فیصد کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا پیدائشی عیسائی مذہب ترک کر دیا ہے۔

Published: undefined

مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں بین المذاہب شادیوں اور بالخصوص ہندو عورتوں کی مسلم مردوں سے شادی کو ’’لو جہاد‘‘ قرار دینے کے تناظر میں اس رپورٹ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ان کے مطابق غیر مسلم خواتین کے مسلم مردوں سے شادی کا جتنا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اتنی سچائی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف دوسرے مذاہب میں شادیوں پر ہنگامہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے مذہب کی دوسری برادریوں میں ہونے والی شادیوں پر بھی تنازع پیدا ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ہونے والی شادیوں میں صرف دس فیصد شادیاں ایسی ہیں جو دوسری برادریوں میں ہوئی ہیں۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں شادی کی شرح صرف دو اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی انتہائی کم۔ ایک رپورٹ کے مطابق دار الحکومت دہلی میں سال 2019 میں جنوری سے ستمبر کے درمیان رجسٹرڈ ہونے والی 19250 شادیوں میں صرف589 شادیاں دوسرے مذاہب میں ہوئی ہیں۔

Published: undefined

خیال رہے کہ یہ رپورٹ 2019 کے اواخر اور 2020 کے اوائل میں 26 ریاستوں میں کیے گئے ایک سروے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس سروے میں 17 زبانیں بولنے والے 30 ہزار بالغ شہریوں سے دوبدو متعدد سوالات پوچھے گئے تھے جن میں زیادہ تر سوالات مذہب سے متعلق تھے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں اترپردیش، آسام، گجرات، مدھیہ پردیش اور کرناٹک نے تبدیلی مذہب مخالف قوانین منظور کیے ہیں اور ان کے تحت مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق شادی کے لیے مذہب بدلنے کو غیر قانونی قرار دیاگیا ہے۔

Published: undefined

مبصرین کے مطابق پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ’’لو جہاد‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ ایک فرقہ وارانہ سیاسی پروپیگنڈہ ہے اور لوگوں کو اکسانے کے لیے اس کا اختراع کیا گیا ہے۔ وہ اس سے اتفاق نہیں رکھتے کہ مسلم مردوں کی غیر مسلم عورتوں سے شادی کا ایک مقصد غیر مسلم خواتین کا مذہب تبدیل کرانا بھی ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے مذاہب یا دوسری برادری میں جو شادیاں ہوتی ہیں وہ اکثر پسند کی یعنی ’’لو میرج‘‘ ہوتی ہیں۔ اور ہندوستانی سماج میں اپنے ہی مذہب یا اپنی ہی برادری میں ہونے والی ’’لو میرج‘‘ کو عام طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔

Published: undefined

خیال رہے کہ ہندوتو نواز تنظیموں کا الزام ہے کہ مسلم نوجوان ایک سازش کے تحت غیر مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت کے دام میں پھانستے ہیں اور پھر ان سے شادی کرکے جبراً ان کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ اس کام کے لیے خلیجی ملکوں سے ایک ایک نوجوان کو دس دس لاکھ روپے ملتے ہیں۔ تاہم تحقیقی رپورٹیں تیار کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ یہ الزام بے بنیاد ہے اور آج تک اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر سے ’’اسلامک دعویٰ سینٹر‘‘ چلانے والے ایک نو مسلم محمد عمر گوتم اور جہاں گیر قاسمی کو جبریہ تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ انھوں نے ایک ہزار غیر مسلموں کا مذہب زبردستی یا لالچ دے کر تبدیل کرایا ہے۔ وہ اس کا ریکٹ چلاتے رہے ہیں اور اس کے لیے انھیں غیر ممالک سے فنڈ ملتا رہا ہے۔ یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ ان دو لوگوں نے ایک ہزار ہندووں کا مذہب جبراً تبدیل کرا دیا۔ کیا ہندو اتنے بزدل اور کمزور ہو گئے ہیں کہ اتنے سارے ہندووں کا مذہب بدلوا دیا گیا اور انھوں نے اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی۔

Published: undefined

عمر گوتم کے اہل خانہ نے اس الزام کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو غیر مسلم اپنا مذہب بدلنے کی نیت سے ان کے پاس آتے تھے وہ ان سے کہتے تھے کہ خوب اچھی طرح غور کر لیجیے، پھر فیصلہ کیجیے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی نوجوان اپنا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ان کے پاس آتا تھا تو وہ اس کے گھر والوں کو اس کی اطلاع دیتے تھے۔ لیکن پولیس اور اترپردیش کی حکومت کوئی اور کہانی سنا رہی ہے۔ یو پی پولیس نے ان دونوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) جیسے سخت قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا ہے اور عدالت کے حکم پر انھیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔

Published: undefined

ہم نے چند ایسے لوگوں سے بات کی جنھوں نے دوسرے مذہب میں شادی کی ہے۔ اپنے نام رازداری میں رکھنے کی شرط پر انھوں نے کہا کہ ’’لو جہاد‘‘ کے پروپیگنڈے میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو پسند کرکے شادی کرتے ہیں اور پھر آگے چل کر وہ دوسرے کا مذہب اختیار کر لیں وہ الگ بات ہے لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ دوسرے کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔

Published: undefined

انھوں نے عمر گوتم کے معاملے میں کہا کہ جو حقائق سامنے آرہے ہیں اور مذہب اسلام قبول کرنے والوں کے جو بیانات آرہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مرکز میں بھی زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا جا رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کا قانون سب کو اپنی پسند کی شادی کرنے یا اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی ایسی کسی شادی کا معاملہ عدالت میں پہنچتا ہے تو عدالت اس شادی کو تسلیم کرتی ہے اور اسے قانونی طور پر جائز ٹھہرا کر ایسے جوڑوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔

Published: undefined

یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بین المذاہب شادیوں کے متعدد معاملات سپریم کورٹ، دہلی ہائی کورٹ، الہ آباد ہائی کورٹ اور ملک کی دیگر عدالتوں میں پہنچے ہیں جہاں شادی شدہ جوڑوں نے عدالت سے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے اور عدالتوں نے ان کو سیکورٹی فراہم کی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ ہندوستان میں دوسرے مذاہب میں شادیوں کی شرح انتہائی معمولی ہے اور یہ کہ جبراً تبدیلی مذہب کرانے کے الزامات بھی بے بنیاد ہیں۔ ایسا قطعاً نہیں ہوتا۔ مذکورہ رپورٹ ہندوستانی شہریوں کی اکثریت کے صاف شفاف ذہن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فسطائی قوتیں اپنے حقیر مفادات کی وجہ سے ان کے اذہان پراگندہ کر دیتی ہیں اور پھر وہ اس کے نتیجے میں فائدہ اٹھاتی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined