قومی خبریں

میرے والد سر چشمہ علم اور قیام امن کے داعی تھے: تمہید بخاری

گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم تمہید بخاری نے ان خیالات کا اظہار اپنے والد کی پہلی برسی کے موقع پر اپنے ایک مضمون میں کیا ہے جو اُن کے والد کے انگریزی اخبار ’رائزنگ کشمیر‘ میں صفحہ اول پر شائع ہوا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سری نگر: نامور کشمیری صحافی مرحوم شجاعت بخاری کے فرزند تمہید بخاری نے اپنے والد کو سرچشمہ علم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کا صحافتی کیریر 25 برسوں پر محیط تھا اور لکھنے اور پڑھنے کو وہ تمام باقی کاموں پر ترجیح دیتے تھے۔ تمہید کا کہنا ہے کہ گھر میں قائم ذاتی کتب خانہ، جس میں مختلف موضوعات پر ہزاروں کی تعداد میں کتابیں موجود ہیں، میں میرے والد گھنٹوں بیٹھ کر کتابوں کی ورق گردانی کرتے تھے اور مختلف موضوعات پر مضامین تحریر کرتے تھے۔

Published: undefined

گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم تمہید بخاری نے ان خیالات کا اظہار اپنے والد کی پہلی برسی کے موقع پر اپنے ایک مضمون میں کیا ہے جو اُن کے والد کے انگریزی اخبار 'رائزنگ کشمیر' میں صفحہ اول پر شائع ہوا ہے۔

Published: undefined

تمہید کی جانب سے اپنے والد کی پہلی برسی کے موقع پر تحریر کیے گئے اس پُر درد مضمون کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا جارہا ہے اور ٹوئٹر پر اس کے شیئر کرنے والوں میں حریت کانفرنس (ع) کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق اور سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

Published: undefined

تمہید اپنے اس مضمون میں جہاں اپنے مقتول والد کو ایک نیک انسان، بہترین صحافی و علم وادب کا دلدادہ قرار دیتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں وہیں ان کی جدائی کے تئیں اپنے کرب دل کو بھی بیان کرتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں: 'میرے والد کی رحلت کا ایک سال مکمل ہوا، 365 دن گزر گئے اُن کی آواز سنی نہ اُن کے مسکراتے چہرے کو دیکھا اور نہ کبھی دیکھیں گے، غم ایک ایسا سیاہ سوراخ ہے جو بے انتہا گہرا ہے، ایک انسان کے جذبات و احساسات کو خاکستر کرتا ہے، سال گزشتہ میرے لئے انتہائی کٹھن سال تھا، وہ ہر پل میرے لوح ذہن پر چھائے ہوئے ہیں، میری دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ اُن کی یادیں دھڑکتی ہیں، اُن کی نصیحتیں اور حوصلہ افزائی مسلسل میرے گوش گزار ہو رہی ہیں'۔

Published: undefined

تمہید اپنے مضمون میں اپنے والد کو امن کا داعی اور وادی کشمیر کے حالات کا نقیب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: 'پہلی برسی کے موقع پر میں اپنے والد کو محض والد یا ایک بااثر صحافی ہونے کے طور پر یاد نہیں کرتا ہوں بلکہ میں انہیں ایک نیک انسان ہونے کے تئیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، ایک ایسے انسان کے بطور جس نے کشمیر کی بہبودی کے لئے کافی کام کیا، وہ سب سے زیادہ امن کے لئے محو جدوجہد تھے، انہوں نے اپنی تمام تر زندگی کشمیر کے حالات کو اجاگر کرنے کے لئے وقف کی تھی'۔

Published: undefined

انہوں نے لکھا ہے کہ میرے والد کے انتقال کو بارہ مہینے گزر گئے، 8 ہزار 760 گھنٹے بیت گئے لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے زمانہ بیت گیا ہے میں آج بھی جب صبح نیند سے جاگتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ ایک ڈراؤنا خواب تھا لیکن جب میں پھر اٹھ کر باہری دنیا میں جاتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں مجھ جیسے بے شمار لوگ ہیں جن کی یہی کیفیت ہے۔ تمہید لکھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں والدین کا انتقال کرنا قدرتی عمل ہے اور یہ ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن والد کو بچپن میں ہی کھونا ناقابل تلافی نقصان ہے۔

Published: undefined

انہوں نے لکھا ہے: 'لوگ کہتے ہیں کہ والدین کو انتقال کرنا ایک قدرتی عمل ہے اور یہ ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن والد کو اُس وقت کھونا جب بچہ ابھی گھونسلے میں ہی ہو ناقابل تلافی نقصان ہے، میری والدہ بہت ہی حوصلہ مند خاتون ہیں جنہوں نے اپنے بے انتہا غم کے باوصف غم کے گہرے گھاؤ کو بھرنے کی کوشش کی۔ 17 برس کی عمر میں مجھے ابھی کافی سیکھنا تھا جس کے لئے ان کی ضرورت تھی'۔

Published: undefined

تمہید لکھتے ہیں کہ والد کے جانے کے بعد میری دنیا ہی بدل گئی، بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ امیدوں اور حقیقتوں میں کافی فرق ہوتا ہے، اس وقت مجھے لگتا ہے کہ میری دنیا ختم ہوگئی ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ دکھاتا ہے۔

Published: undefined

وہ لکھتے ہیں کہ میرے والد اور میرے مامو نے رائزنگ کشمیر کو مارچ 2008 میں شروع کیا اور وہ اس کو مادر وطن کی خدمت کے لئے وقف کرنے کی کوشش کرتے تھے، وہ رائزنگ کشمیر محض ایک دفتر نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ دفتر کے عملے کو توسیعی کنبہ گردانتے تھے اور دفتر کے ہر ملازم کے ساتھ اپنے ہی کنبے کے فرد جیسا سلوک روا رکھتے تھے۔ تمہید کا کہنا ہے کہ ماموں کی سربراہی میں ادارہ تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے اور اللہ کے کرم اور لوگوں کی دعاؤں کے باعث ادارہ ابھی بھی مستحکم ہے۔

Published: undefined

واضح رہے کہ قریب تین دہائیوں تک میڈیا سے وابستہ رہنے والے شجاعت بخاری کو سال گزشہ 14 جون کی شام نامعلوم بندوق برداروں نے پریس کالونی سری نگر میں اپنے دفتر کے باہر نزدیک سے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ ان کے پسماندگان میں والدین، بیوی، ایک بیٹے (تمہید) اور ایک لڑکی شامل ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined