قومی خبریں

’گھوٹالہ کے انکشاف کی وجہ سے مودی حکومت نے کے وی سبرامنین کو آئی ایم ایف سے ہٹایا‘، کانگریس کا سنگین الزام

سپریا شرینیت نے پوچھا کہ کیا بی جے پی نے نریندر مودی کی شبیہ بہتر بنانے کے لیے یہ پیسہ یونین بینک آف انڈیا کو نہیں دیا تھا؟ یہ پیسہ عوام کا تھا تو اس کا غلط استعمال کیوں کیا گیا؟

<div class="paragraphs"><p>پریس کانفرنس کرتی ہوئیں سپریا شرینیت، ویڈیو گریب</p></div>

پریس کانفرنس کرتی ہوئیں سپریا شرینیت، ویڈیو گریب

 

کانگریس ترجمان اور سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ کی چیف سپریا شرینیت نے آج دعویٰ کیا کہ یونین بینک اور ایک کتاب سے متعلق گھوٹالہ کے سبب مودی حکومت نے کے وی سبرامنین کو بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عہدہ سے قبل از وقت ہٹانے کا فیسلہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس پورے معاملے کا انکشاف ہونے کے عبد مودی حکومت کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔

Published: undefined

6 مئی کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریا شرینیت نے کہا کہ ’’مودی حکومت نے دو دن قبل اچانک آئی ایم ایف میں ہندوستان کے کارگزار ڈائریکٹر کے وی سبرامنین کی مدت کار ختم کر دی، جبکہ ان کی مدت کار ختم ہونے میں اب بھی 6 ماہ باقی تھے۔ حکومت نے ابھی تک اس معاملے میں کوئی واضح وجہ نہیں بتائی ہے۔ یہ وہی کے وی سبرامنین ہیں جو کووڈ کے دوران 24 فیصد شرح اضافہ کے باوجود ’وی شیپڈ ریکوری‘ (شدید گراوٹ کے بعد تیز بہتری) کی بات کر رہے تھے۔‘‘ انھوں نے سوال کیا کہ ایسا کیا ہوا کہ انھیں اچانک برخاست کر دیا گیا؟ کانگریس نے اپنے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایسا ایک گھوٹالہ کی وجہ سے ہوا ہے، اور یہ یونین بینک آف انڈیا کے آفیشیل دستاویزات سے پتہ چلتا ہے۔

Published: undefined

شرینیت نے الزام عائد کیا کہ ’’یونین بینک نے وزیر اعظم مودی کے سابق چیف معاشی مشیر اور ’وقف چیئر لیڈر‘ کے وی سبرامنین کے ذریعہ لکھی گئی کتاب ’انڈیا@100‘ کی تقریباً 2 لاکھ کاپیاں آرڈر کیں۔ ان 2 لاکھ کاپیوں کی مجموعی قیمت 7.25 کروڑ روپے سے زیادہ تھی، اور یہی نہیں، 3.5 کروڑ روپے تو ایڈوانس بھی دے دیے گئے۔‘‘ کانگریس ترجمان کا کہنا ہے کہ ان میں 189450 کاپیاں پیپر بیک اور 10422 ہارڈ کور کی کاپیاں شامل تھیں۔ ان کتابوں کو بینک کے علاقائی اور زونل دفتر سے لے کر اکاؤنٹس ہولڈر، اسکول اور کالجوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ بینک کے 18 زونل دفتر ہیں اور ہر زونل دفتر کو 10525 کاپیاں دی جانی تھیں۔ شرینیت نے دعویٰ کیا کہ نصف ادائیگی کے بعد بینک نے تمام علاقائی دفاتر کو کہا کہ بقیہ ادائیگی اضافی خرچ میں دکھا دیا جائے۔

Published: undefined

سپریا شرینیت کا کہنا ہے کہ ’’سوال ہے ان کی بھونڈی تشہیر کیوں کی گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے حکومت کی ہر غلط پالیسی کو صحیح بتانے کا کام کیا اور پہلے کی حکومتوں کی معاشی پالیسیوں پر زبردستی کا تبصرہ کیا تھا۔‘‘ یہ بیان کرنے کے بعد وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے اس شرمناک انکشاف کے سبب ہی مودی حکومت کو مجبوراً کے وی سبرامنین کو ان کے عہدہ سے ہٹانا پڑا ہے۔

Published: undefined

سپریا شرینیت کے مطابق کے وی سبرامنین حقیقی معنوں میں وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے جانے مانے بھکت ہیں۔ وزیر اعظم کے چیف معاشی مشیر رہتے ہوئے کے وی سبرامنین نے 20-2019 کے اقتصادی سروے میں ’تھالی نامکس‘ کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک معمولی ویج تھالی کی قیمت صرف ایک سال میں 52 فیصد بڑھ گئی ہے۔ جب ملک بے روزگاری اور مہنگائی سے نبرد آزما تھا، تب حکومت، سرکاری بینک کے ذریعہ نریندر مودی کو صحیح ٹھہرانے کے لیے 2 لاکھ کتابوں کی کاپیاں خرید رہی تھیں۔ ایسے میں حکومت، سرکاری بینک اور وزارت مالیات سے ہمارے کچھ سوال ہیں:

  1. کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یونین بینک آف انڈیا نے کے وی سبرامنین کی کتاب کی 2 لاکھ کاپیاں خریدیں، کیا بینک نے 7 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے اپنے بورڈ یا وزارت مالیات کے ڈپارٹمنٹ آف فنانشیل سروسز سے اجازت لی تھی؟

  2. بی جے پی نے نریندر مودی کی شبیہ بہتر کرنے کے لیے یہ پیسہ یونین بینک آف انڈیا کو نہیں دیا تھا۔ یہ پیسہ عوام کا تھا تو اس کا غلط استعمال کیوں کیا گیا اور کیا اکاؤنٹ ہولڈرس کو اس بارے میں کوئی جانکاری دی گئی تھی؟

  3. کیا وزارت مالیات نے اس بات کی جانچ کی ہے کہ یہ ’کنفلکٹ آف انٹریسٹ‘ کیسے ہوا؟

  4. یونین بینک آف انڈیا کی منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او منی میکھلائی، جن کا جون 2025 میں ایکسٹنشن ہونا ہے، تو کیا انھوں نے اپنے ایکسٹنشن کی پیروی کرنے کے لیے بالواسطہ رشوت دی، کیا یہ سب ان کی جانکاری میں ہوا؟

  5. کیا وزارت مالیات سیتارمن جی اس لین دین پر صفائی دیں گی، وزیر اعظم دفتر اس میں کیوں اور کس حد تک شامل تھا، اس کا جواب کون دے گا؟

Published: undefined

آپ کو بتا دیں کہ 4 مئی کو ’آل انڈیا یونین بینک ایمپلائز ایسو سی ایشن‘ نے بھی بینک کی منیجنگ ڈائریکٹر اور سی ای او سے عوام کے پیسے کی اس فضول خرچی اور بربادی کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔

بہرحال، سپریا شرینیت کا کہنا ہے کہ ’’آپ کو یاد ہوگا، دسمبر 2024 میں حزبا ختلاف کے قائد راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’مودی حکومت نے عوامی سیکٹر کے بینکوں (پی ایس بی)، جو عوام کی لائف لائن ہیں، انھیں صرف امیر اور طاقتور کمپنیوں کے لیے پالتو ساہوکار بنا کر رکھ دیا ہے۔‘ حزب اختلاف کے قائد کی یہ بات صد فیصد سچ ہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں، جہاں آر ایس ایس کارکنان اور بھکتوں کو اہم عہدوں پر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ 10 سالوں میں اپنی تشہیر اور شبیہ چمکانے کے لیے ’بھکت اور ٹرول منڈلی‘ بنائی ہوئی ہے، جنھیں طرح طرح سے فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ پھر وہ ’متر اڈانی‘ ہو یا معاشی دلیل سے زیادہ نریندر مودی کے من کی بات کرنے والے کے وی سبرامنین، ان سبھی کے لیے نئے ہندوستان کے ’امرت کال‘ میں بدعنوانی کے نئے باب لکھے جا رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

واضح رہے کہ مودی حکومت نے حال ہی میں ایک حیرت انگیز قدم اٹھاتے ہوئے آئی ایم ایف میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے وی سبرامنین کی خدمات 3 سالہ مدت کار ختم ہونے سے 6 ماہ قبل ہی ختم کر دی تھی۔ یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ قرض میں ڈوبے پاکستان کے لیے مالی امداد پر غور کرنے والا ہے۔ گزشتہ ماہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان سفارتی اور مختلف عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہندوستان کا ماننا ہے کہ اس حملے میں پاکستان شامل ہے۔ اس دہشت گردانہ حملے میں 26 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined