
دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں بیوی کی اس اپیل کو خارج کر دیا جس میں اس نے اپنے خلاف طلاق کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ شادی صرف ساتھ رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اعتماد، وفاداری اور شفافیت اس کی بنیاد ہے۔ بیوی کے مسلسل مشکوک رویے اور جوابات کے بحران نے ازدواجی رشتے میں اعتماد کو توڑنے کا کام کیا جو ذہنی ظلم کے دائرے میں آتا ہے۔
Published: undefined
معاملے میں شوہر نے الزام لگایا تھا کہ بیوی کے دو مختلف مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتی تھی اور رات بھر ان سے متی تھی۔ بیوی نے ان ملاقاتوں کو محض پروفیشنل رشتہ بتایا لیکن عدالت میں وہ اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ٹھوس دستاویز نہیں پیش کرسکی۔ اس کے علاوہ کوئی معاہدہ، بل یا ای میلز بھی نہیں تھے جو یہ ثابت کریں کہ تعلقات صرف خالصتاً پیشہ ورانہ تھے۔
Published: undefined
فیملی کورٹ نے بیوی سے پوچھا کہ وہ رات گئے تک دونوں افراد سے کہاں اور کیوں ملیی تھی۔ اس کے جواب میں اس نے بار بار کہا کہ وہ بتا نہیں سکتی یا بیان نہیں کر سکتی۔ ہائی کورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ ایک عام آدمی یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ اس نے کسی خاص شخص کے ساتھ رات کہاں گزاری؟۔ عدالت نے کہا کہ اس طرح کے جوابات سے فطری طور پر شک پیدا ہوتا ہے اور بیوی شک دور کرنے میں ناکام رہی۔
Published: undefined
جسٹس انل کھیترپال اور جسٹس ہریش ویدیا ناتھن شنکر کی بنچ نے کہا کہ بے وفائی ہمیشہ براہ راست ثبوت سے ثابت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات حالات، طرز عمل اور مسلسل چھپانا ذہنی ظلم کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ جب کسی رشتے میں ایسا برتاؤ ہو جوخوف، شک اور جذباتی خیانت پیدا کرے اور ملزم فریق واضح طور پر انیں دور نہ کر سکے تو یہ ذہنی ظلم سمجھا جائے گا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جذباتی بے وفائی اتنی ہی سنگین ہے جتنی جسمانی بے وفائی کیونکہ یہ رشتے میں اعتماد کی بنیاد کو توڑ دیتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined