قومی خبریں

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی دفاع میں کھڑے ہوئے دانشوران، مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ

کئی علماء و دانشوروں نے ایک مشترکہ بیان جاری کر کہا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی پوری زندگی ملک وملت کی خدمت سے عبارت ہے، ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرنا ناقابل فہم ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

نئی دہلی: ملک کی سرکردہ شخصیات نے ایک بیان کی وجہ سے تنازعہ میں پھنسے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مبینہ کردارکشی کی سخت مذمت کی ہے۔ متعدد ملی دانشوروں، علماء اور اہم شخصیات نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی حمایت میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی پوری زندگی ملک وملت کی خدمت سے عبارت ہے، ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرنا قطعی ناقابل فہم ہے۔

Published: 04 May 2020, 10:11 PM IST

جاری کردہ مشترکہ بیان پر دستخط کرنے والوں میں محمدادیب(سابق ممبرپارلیمنٹ)، مولاناانیس الرحمن قاسمی(سابق ناظم امارت شرعیہ بہارواڑیسہ)، پروفیسر اخترالواسع(صدر مولاناآزادیونیورسٹی، جودھپور)، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس(صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا)، پروفیسر محسن عثمانی ندوی(صدر مولاناعلی میاں ویلفیئر بورڈ)، مفتی عطاالرحمن قاسمی(سابق رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)، معصوم مرادآبادی(سکریٹری آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس)، پروفیسرعلی جاوید(سابق استاد شعبہ اردوہلی یونیورسٹی)، انیس درانی(کالم نگار)، نیلوفر سہروردی(کالم نگار)، زیڈ کے فیضان(ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) وغیرہ شامل ہیں۔

Published: 04 May 2020, 10:11 PM IST

دستخط کنندگان نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو غلط طریقے سے پھنسائے جانے کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے "میڈیا ٹرائل" کی بھی شدید مذمت کی اور استدلال کیا ہے کہ انہیں جس فیس بک پوسٹ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے، وہ دراصل ہندتوا طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنانے کے خلاف تھی جس میں حکومت کویت کے اس موقف کی تائید کی گئی تھی جو اس نے شمال مشرقی دہلی کے مسلم کش فساد کی مذمت اور مظلومین کے حق میں اختیار کیا تھا۔

Published: 04 May 2020, 10:11 PM IST

مشترکہ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ متنازعہ پوسٹ میں ہندوستان یا یہاں کی حکومت کے بارے میں کچھ نہیں تھا۔ میڈیا پر جان بوجھ کر ان کی شبیہ مسخ کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھیں ایسے فرضی بیان کی آڑمیں نشانہ بنایا جارہا ہے جو انھوں نے دیا ہی نہیں ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دہلی پولیس اور حکومت کو کوئی بھی قدم آگے بڑھانے سے پہلے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اور ان کی قومی وملی خدمات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو اورشر پسند اپنا کھیل کھیلنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

Published: 04 May 2020, 10:11 PM IST

مشترکہ بیان میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی شناخت ملک گیر سطح پر انسانی حقوق کے ایک بے لوث خادم کی ہے اور انھوں نے ہمیشہ دستور کی آزادی اور اس کی اقدار کا دفاع کیا ہے۔انھوں نے اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور دہلی میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ہم حکومت اور متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے خلاف جاری "منافرانہ" مہم پر لگام لگائے او ر ایک قانون کے پابند شہری کی حیثیت سے ان کے شہری حقوق کاتحفظ کیا جائے اور ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر منسوخ کی جائے۔ یہ بھی واضح رہنا رہنا چاہئے کہ ہندوستان ایک جمہوری اسٹیٹ ہے نہ کہ پولیس اسٹیٹ اور جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔

(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

Published: 04 May 2020, 10:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 04 May 2020, 10:11 PM IST