قومی خبریں

مغربی بنگال میں اب یونیورسٹیز کے چانسلر عہدہ پر گورنر نہیں وزیر اعلیٰ کا ہوگا قبضہ!

مغربی بنگال کے گورنر اور ممتا حکومت کے درمیان تازہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب ریاستی کابینہ نے گورنر کی جگہ ریاست کی سبھی یونیورسٹیوں کا چانسلر وزیر اعلیٰ کو مانے جانے سے متعلق بل لانے کا فیصلہ کیا۔

ممتا بنرجی / ٹوئٹر
ممتا بنرجی / ٹوئٹر 

مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکھڑ اور ممتا بنرجی حکومت کے درمیان تازہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب جمعرات کو ریاستی کابینہ نے گورنر کی جگہ ریاست کی سبھی یونیورسٹیوں کا چانسلر وزیر اعلیٰ کو مانے جانے سے متعلق بل لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ پہلی بار ہے کہ ریاستی حکومت نے ریاست کی یونیورسٹیوں کا چانسلر گورنر کو مانے جانے کے پروٹوکول کو توڑنے کے لیے اس طرح کی پیش قدمی کی ہے۔

Published: undefined

ریاستی سکریٹریٹ، نبانّا میں ریاستی کابینہ کی میٹنگ کے بعد وزیر تعلیم برتیہ بسو نے کہا کہ ریاستی حکومت اسمبلی میں ایک بل لائے گی جس میں تجویز ہوگی کہ ریاست کی یونیورسٹیوں کی چانسلر وزیر اعلیٰ ہوں گی، گورنر نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد اسے گورنر کے پاس بھیجا جائے گا۔ اگر گورنر بل کو منظوری دینے سے انکار کرتے ہیں تو ریاستی حکومت اس پریکٹس میں بدلاؤ کو نافذ کرنے کے لیے ایک آرڈیننس لائے گی۔‘‘

Published: undefined

یہ معاملہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب ریاستی حکومت اور برسراقتدار ترنمول کانگریس پہلے ہی مغربی بنگال اسکول سروس کمیشن (ڈبلیو بی ایس ایس سی) کی تقرری ضابطوں کی سی بی آئی سے چل رہی جانچ میں شامل ہے۔ مرکزی ایجنسی کے افسر ریاستی حکومت کے دو وزراء سے پوچھ تاچھ کر چکے ہیں۔ بہرحال، اس خبر کے لکھے جانے تک گورنر کی طرف سے اس معاملے میں کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ حالانکہ اپوزیشن پارٹیوں نے اس پیش قدمی کی تنقید کی ہے۔

Published: undefined

بی جے پی کے ریاستی ترجمان شمک بھٹاچاریہ نے کہا کہ یہ ریاستی یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’وزیر اعلیٰ شروع سے ہی ریاست کو ایک آزاد یونٹ کی شکل میں چلانے کی کوشش کر رہی تھیں، اور اس لیے انھوں نے ایسا فیصلہ لیا ہے جو پہلے کسی ریاستی حکومت نے نہیں کیا ہے۔ یہ روایت کے خلاف ہے۔‘‘

Published: undefined

سی پی ایم سنٹرل کمیٹی کے رکن اور اسمبلی میں بایاں مھاذ کے سابق لیڈر ڈاکٹر سجان چکرورتی نے دلیل دی کہ اس پیش قدمی کا مقصد ریاستی یونیورسٹیوں پر براہ راست انتظامی اور سیاسی کنٹرول رکھنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ فیصلہ ایسے وقت میں لیا گیا ہے جب تعلیم کے شعبہ میں موجود بدعنوانی کی وجہ سے ریاست کے کئی وزرا اور افسران کا کردار سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ یہ ریاستی ایجنسیوں کے کام کی پوری طرح سیاست کاری ہے۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ مرکزی ایجنسیوں کے لیے مکمل خود مختاری کا مطالبہ کر رہی ہیں اور دوسری طرف وہ ریاستی یونیورسٹیوں کی خود مختار نوعیت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined