جسٹس یشونت ورما، تصویر سوشل میڈیا
نئی دہلی: ایلہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے خلاف مواخذے کی کارروائی باضابطہ طور پر شروع ہو گئی ہے۔ منگل 12 اگست کو لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے ان کے خلاف پیش کیے گئے مواخذے کے تجویز کو منظور کر لیا۔ یہ تجویز 146 ارکان پارلیمنٹ کے دستخط کے ساتھ پیش کی گئی تھی، جن میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کے اراکین شامل ہیں۔
Published: undefined
اسپیکر اوم برلا نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اروند کمار، مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منیندرا موہن سریواستو اور کرناٹک ہائی کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ وی بی آچاریہ شامل ہیں۔ کمیٹی کا مقصد الزامات کی تفصیلی جانچ کر کے اپنی رپورٹ پیش کرنا ہے۔ جب تک کمیٹی کی رپورٹ موصول نہیں ہوتی، مواخذے کی کارروائی زیرِ التوا رہے گی۔
Published: undefined
یہ معاملہ اس وقت سنگین رخ اختیار کر گیا جب رواں سال 14 مارچ کو دہلی میں جسٹس ورما کے سرکاری رہائش گاہ میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت وہ دہلی ہائی کورٹ میں موجود تھے۔ اطلاع ملتے ہی دہلی فائر سروس کی ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچی اور آگ پر قابو پا لیا گیا۔ تاہم آگ بجھنے کے بعد جو منظر سامنے آیا، اس نے سب کو حیران کر دیا۔
رپورٹس کے مطابق، رہائش گاہ کے اسٹور روم سے 500 روپے مالیت کے جلے ہوئے نوٹوں کے کئی بنڈل برآمد ہوئے، جو بوریوں میں بھر کر رکھے گئے تھے۔ یہ نوٹ آگ کے باعث بری طرح جھلس گئے تھے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ رقم لاکھوں میں تھی۔ واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی حلقوں اور عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
Published: undefined
مواخذے کی تجویز کے حامی ارکان پارلیمنٹ کا مؤقف ہے کہ جسٹس ورما پر عائد الزامات نہ صرف سنگین ہیں بلکہ عدلیہ کی ساکھ کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ ان کے مطابق، اس طرح کے معاملات میں قانون اور آئین کے تحت سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے تاکہ عدلیہ میں عوام کا اعتماد قائم رہے۔
آئینی طریقہ کار کے مطابق، کسی جج کے خلاف مواخذے کی کارروائی اس وقت شروع ہوتی ہے جب پارلیمنٹ کے کسی ایک ایوان میں ایک خاص تعداد میں ارکان تحریری طور پر تجویز پیش کریں۔ اسپیکر یا چیئرمین تجویز قبول کرنے کے بعد جانچ کمیٹی تشکیل دیتے ہیں۔
Published: undefined
اگر کمیٹی اپنی رپورٹ میں الزامات ثابت کر دے اور دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے منظوری مل جائے، تو صدرِ جمہوریہ اس جج کو عہدے سے برطرف کر سکتے ہیں۔
اب اس کیس میں اگلا مرحلہ تحقیقاتی کمیٹی کی تفصیلی جانچ ہے، جس میں گواہوں کے بیانات، شواہد اور دیگر مواد کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے توقع ہے کہ رپورٹ تیار ہونے میں خاصا وقت لگ سکتا ہے۔ فی الحال، جسٹس ورما کے خلاف یہ کارروائی ملک میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے تعلقات پر ایک اہم آئینی مثال کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined