قومی خبریں

بھوپال: سرنیم ’خان ‘ کے باعث مجھ سے ’اچھوتوں‘ والا سلوک کیا گیا، مسلم افسر کا درد

مدھیہ پردیش کے ایک مسلم افسر نے ٹوئٹر پر اپنا درد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے ساتھ اچھوتوں جیسے سلوک کیا گیا اور خان سر نیم ان کا آسیب کی طرح پیچھا کرتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے ایک مسلم افسر نے اپنی ملازمت کے دوران ان کے ساتھ ہونے والے تعصب کا ٹوئٹر پر ذکر کر کے سنسنی پھیلا دی ہے۔ محکمہ پی ایچ ای (پبلک ہیلتھ انجینئرنگ) میں ڈپٹی سکریٹری نیاز احمد خان نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ دوران ملازمت ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ لگاتار برا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے ایک سینئر افسر کی طرف سے کی گئی بدسلوکی کے واقعہ کا بھی ٹوئٹر پر ذکر کیا ہے۔

نیاز احمد خان نے یکے بعد دیگرے 5 ٹوئٹ کئے جس میں انہوں نے لکھا کہ ان کے نام کے ساتھ لفظ خان ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی سروس کے دوران بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے اور خان سر نیم ان کا آسیب کی طرح تعاقب کر رہا ہے۔ دراصل، نیاز خان نے ٹوئٹر پر اپنا درد ایک واقعہ کے بعد لکھا۔ نیاز کے مطابق وزارت میں ان کے سینئر افسر نے ایک میٹنگ کے دوران ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ جس کے بعد انہوں نے کافی سوچا اور آخر کار سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہوئی بدسلوکی کے واقعہ کا ذکر کر دیا۔

بعد ازاں نیاز احمد نے میڈیا سے کہا، ’’میں نے ٹوئٹر کا سہارا لیا کیوں کہ پانی سر کے اوپر جا چکا ہے۔ 17 سالوں میں 10 اضلاع میں 19 مرتبہ یا تو میرا محکمہ تبدیل کر دیا گیا یا پھر میدرا تبادلہ کر دیا گیا، لیکن میں نے اپنا کام ہمیشہ ایمانداری سے کیا۔ ایمانداری سے کام کرنے کے باوجود مجھے ہر وقت ہدف بنایا گیا۔‘‘

Published: 11 Jan 2019, 4:12 PM IST

نیاز احمد خان نے بات چیت کے دوران کہا، ’’میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جس مذہب سے میں آتا ہوں اس کی وجہ سے میرے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے کیوں کہ کئی مرتبہ مجھے یہ احساس کرایا گیا کہ میں مذہب اسلام سے آتا ہوں۔‘‘ نیاز نے سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا بھوپال سے میں وہ سال بھر سے ہیں لیکن انہیں سرکاری رہائش تک نہیں دی گئی جبکہ ان کے ساتھ والے تقریبا ہر افسر کو رہائش مل چکی ہے۔

نیاز خان نے کہا کہ انہوں نے اب تک 5 کتانوں کی تصنیف کی ہے اور جلد ہی ایک مزید کتاب کی تصنیف کرنے جا رہے ہیں، جس میں وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر وہ ضرور لکھیں گے کہ مسلم ہونے کی وجہ سے افسران کو کیا کیا برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘‘

Published: 11 Jan 2019, 4:12 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 11 Jan 2019, 4:12 PM IST