قومی خبریں

حجاب تنازعہ: مزید انتشار پیدا ہونے اور مذہبی پولرائزیشن بڑھنے کا خطرہ، سروے میں انکشاف

کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر انتظامیہ یا افسران یونیفارم جیسے ضابطے کو نافذ کرتے ہیں تو یہ درست ہے اور مسلم لڑکیوں کو اسکولوں و کالجوں کے اندر حجاب پہننے کی منظوری عدالت نے نہیں دی۔

حجاب، تصویر آئی اے این ایس
حجاب، تصویر آئی اے این ایس 

حجاب تنازعہ سے ملک میں انتشار مزید گہرانے اور مذہبی پولرائزیشن کی طرف تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ آئی اے این ایس-سی ووٹر سنیپ پول میں سامنے آئے ریزلٹ سے یہ جانکاری ملی ہے۔ سروے کے دوران 1508 لوگوں سے بات چیت کی گئی۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ حجاب تنازعہ کو لے کر فیصلہ سنائے جانے کے بعد آئی اے این ایس-سی ووٹر سروے کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر انتظامیہ یا افسر یونیفارم جیسے ضابطے کو نافذ کرتے ہیں تو یہ درست ہے اور مسلم لڑکیوں کو اسکولوں و کالجوں کے اندر حجاب پہننے کی منظوری عدالت نے نہیں دی ہے۔

Published: undefined

حالانکہ فیصلے کے لیے مجموعی طور سے الگ الگ لوگوں کی اپنی الگ الگ رائے ہے اور سروے کے دوران جانبدارانہ طریقے سے کچھ تقسیم واضح شکل میں دکھائی دی۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حجاب تنازعہ ایک تیار کیے گئے ایشو سے زیادہ ہے، این ڈی اے کے 56.3 فیصد ووٹروں نے اتفاق ظاہر کیا، جب کہ 60.2 فیصد اپوزیشن ووٹرس نے بھی اتفاق کا اظہار کیا۔ یہ باہری طور سے ایک ٹو پارٹی حمایت کی طرح نظر آتا ہے۔ اس تنازعہ کے پیدا ہونے کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اس پر اپوزیشن ووٹرس کا ایک بالکل الگ نظریہ ہے۔

Published: undefined

ایک دیگر سوال پر کہ کیا تنازعہ سے مذہبی بنیاد پر پولرائزیشن ہوگا، تقریباً 54 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ مذہبی بنیاد پر پولرائزیشن بڑھے گا۔ این ڈی اے کے 51 فیصد حامی اس بات سے متفق تھے، جب کہ 56 فیصد اپوزیشن لیڈروں نے مزید پولرائزیشن کا اندیشہ ظاہر کیا۔ اس سوال کے جواب کے دوران کچھ امید کی شمع دکھائی دے رہی تھی کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یکساں سول کوڈ اس طرح کے ایشوز کو حل کرے گا؟ مجموعی طور پر 70 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان نے اس بات سے اتفاق ظاہر کیا، جب کہ این ڈی اے کے 77 فیصد ووٹرس اور 65.5 فیصد اپوزیشن ووٹرس اس سے متفق تھے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined