قومی خبریں

پردیومن قتل معاملہ: ڈرائیور اشوک کو ’بلی کا بکرا‘ بنانے کی کوشش!

10 باتیں جن سے لگتا ہے کہ پردیومن کے قتل میں اشوک کو ’بلی کا بکرا‘ بنایا جا رہا ہے

تصویر ٹوئٹر
تصویر ٹوئٹر 

ریان انٹرنیشنل اسکول کے طالب علم پردیومن کے قتل کا معمہ دن بہ دن الجھتا ہی جا رہا ہے۔ پردیومن کی موت کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پولس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس قتل کو بس کنڈکٹر اشوک نے انجام دیا ہے۔ پولس کا دعویٰ تھا کہ اشوک نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ لیکن اب جو حقیقت اور خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اشوک کو ’بلی کا بکرا‘ بنایا جا رہا ہے۔ دراصل قاتل کوئی دوسرا ہی ہے اور قتل کی وجہ بھی کچھ ایسی ہے جس کی طرف لوگوں کی توجہ ابھی تک نہیں گئی۔ اس وجہ کو شاید پولس اور ہریانہ حکومت کے ساتھ ساتھ ریان اسکول بھی چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

پردیومن کے قتل کے معاملے میں جس طرح کی پیچیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی تقریباً دس سال قبل نوئیڈا میں آروشی قتل کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کیس میں بھی پولس نے پہلے یہ بتایا تھا کہ آروشی کا قتل گھریلو نوکر ہیم راج نے کیا ہے اور وہ فرار ہے۔ لیکن جب اگلے دن ہیم راج کی لاش آروشی کے گھر کی چھت پر ملی تو شک کے دائرے میں کچھ دوسرے لوگ آئے اور اس کو ’آنر کلنگ‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ اس معاملے میں ذیلی عدالت نے آروشی کے والدین کو سزا بھی سنائی تھی۔ لیکن پردیومن کا معاملہ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پردیومن قتل واقعہ سے متعلق اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ 8 ستمبر کو صبح تقریباً 8 بجے یہ خبر ملی کہ پردیومن واش روم میں خون سے لتھ پتھ پڑا ہے۔ لوگوں کے جمع ہونے کے بعد اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں اسے مردہ قرار دیا گیا۔ جو شخص بری طرح زخمی پردیومن کو اپنی گود میں اٹھا کر کار تک لے گیا، اس کا نام اشوک ہے، اور اسے ہی اصلی قاتل بتایا جا رہا ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے؟ یا پھر اسے کوئی بلی کا بکرا بنا رہا ہے؟ اس کو سمجھنے میں دس اہم نکات آپ کی مدد کر سکتے ہیں، آپ توجہ فرمائیں:

  1. پورا واقعہ محض 10 سے 15 منٹ میں ہی اختتام کو پہنچ گیا۔ وہ بھی اس وقت جب اسکول میں خوب گہما گہمی ہوتی ہے۔ والدین بچوں کو اسکول چھوڑنے آئے ہوتے ہیں، ٹیچر اسمبلی کے لیے جمع ہو رہے ہوتے ہیں اور بچوں میں اپنے درجات میں پہنچنے کی بھاگ دوڑ مچی ہوتی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کوئی بھی اس بیت الخلاء کی طرف نہیں گیا جو رسپشن سے بالکل قریب ہی تھا؟ اتنا ہی نہیں، کسی نے پردیومن کے چیخنے کی آواز بھی نہیں سنی؟
  2. پولس کا دعویٰ ہے کہ بس کنڈکٹر اشوک کمار نے بیت الخلاء میں بچے کا جنسی استحصال کرنے کی کوشش کی اور جب اس نے مخالفت کی تو چاقو سے اس کا قتل کر دیا۔ پولس کا کہنا ہے کہ ’’اشوک نے یہ چاقو بس کے ٹول کٹ سے چرایا تھا۔‘‘ لیکن پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ’’بچے کے جسم پر کسی دیگر زخم یا چوٹ کے نشان نہیں ملے ہیں۔ جسم پر ملے زخم کو سیمپل جانچ کے لیے فارنسک لیب بھیجا گیا تھا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بچے کا جنسی استحصال کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی تھی۔‘‘
  3. پولس کا کہنا ہے کہ چاقو بس کی ٹول کٹ سے چرایا گیا تھا، لیکن بس کے ڈرائیور سوربھ راگھو کا دعویٰ ہے کہ ٹول کٹ میں کوئی چاقو تھا ہی نہیں۔
  4. پولس کے مطابق پردیومن جب بیت الخلاء میں گیا تو اس نے اشوک کو انگشت زنی کرتے ہوئے دیکھا۔ کنڈکٹر اس سے گھبرا گیا اور اسے لگا کہ بچہ یہ بات کسی کو بتا دے گا، جس سے اس کی پٹائی ہوگی اور ملازمت بھی جا سکتی ہے۔ اس لیے وہ بچے کی طرف دوڑا اور اسے دھکا دیا جس سے وہ گرا اور اس کا سر کموڈ سے ٹکرایا۔ لیکن پولس کی یہ بات بھی سچ نہیں معلوم ہوتی کیونکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں بچے کے جسم پر کسی بھی قسم کے چوٹ کا نشان نہیں ملا ہے۔ صرف اس کے گلے پر دو گہرے نشان ملے ہیں جن سے بہت زیادہ خون بہہ جانے کے سبب پردیومن کے قتل کی بات کہی گئی ہے۔
  5. پولس کا دعویٰ ہے کہ اشوک کی قمیض پر خون کے داغ ملے ہیں اور اسی بنیاد پر اس کو گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن زخمی یا مردہ حالت میں پردیومن کو سب سے پہلے دیکھنے والے اسکول کے مالی ہرپال کا بیان ہے کہ ’’انجو میڈم نے مجھ سے پردیومن کو اٹھانے کے لیے کہا لیکن میں نے اس لیے منع کر دیا کیونکہ میں دبلا پتلا ہوں۔ اسی درمیان وہاں اشوک کمار آ گیا اور ٹیچروں نے اسے پردیومن کو اٹھانے کے لیے کہا۔ اشوک نے بلا تاخیر بچے کو اٹھایا اور اسے لے جا کر ویگنار کار میں رکھ دیا۔ اس دوران مجھے اشوک کی کسی بھی حرکت سے ایسا نہیں لگا کہ وہ قاتل ہے۔ حالانکہ اس کی پوری قمیض پر پردیومن کو اٹھانے کے سبب خون ضرور لگ گیا تھا لیکن پھر بھی وہ بہت معمول نظر آ رہا تھا۔
  6. پولس کا کہنا ہے کہ اشوک کمار کا رشتہ اس کی بیوی کے ساتھ اچھا نہیں تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے بچے کا جنسی استحصال کرنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن نہ صرف اشوک کی بیوی بلکہ گھمروج کے وویک بھارتی اسکول کے پرنسپل منوج کمار کا کہنا ہے کہ اشوک کے بارے میں ایسی کوئی بات کبھی نہیں سنی۔ اشوک پہلے اسی اسکول میں کام کرتا تھا اور اس کی بیوی اور والد اب بھی اسی اسکول میں کام کرتے ہیں۔
  7. پولس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بچے کے بیت الخلاء جانے کے بعد اشوک بیت الخلاء میں گیا اور اسے اس بات میں کوئی بھی شبہ نہیں ہے کہ یہ قتل اشوک نے ہی کیا ہے۔ لیکن بیت الخلاء کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی ہے جس سے کوئی بھی بغیر کسی کو خبر کیے وہاں آ سکتا ہے یا جا سکتا ہے۔ کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ بیت الخلاء میں کوئی کھڑکی کے راستے گھسا ہو؟
  8. کنڈکٹر اشوک نے میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے بچے پر سامنے سے حملہ کیا تھا نہ کہ پیچھے سے۔ ایسی حالت میں اس کے کپڑوں یا پیروں پر کسی بھی قسم کا خون کا نشان کیوں نہیں ملا؟
  9. اشوک کمار کے گاؤں گھمروج کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اشوک کے کردار کے بارے میں جاننے کے لیے پولس کے کسی بھی افسر نے گاؤں کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے بات کی۔ کوئی 42 سالہ نوجوان بچپن سے ہی اگر کہیں رہتا ہے تو اس کے بارے میں وہاں کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ پولس کو اس کے کردار کے بارے میں جانکاری دے سکتے ہیں۔ لیکن گاؤں میں ایک بات پر عام رائے ہے کہ اشوک کو بلی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
  10. اسکول کا دعویٰ ہے کہ جب پردیومن کو اسپتال لے جایا جا رہا تھا تو وہ زندہ تھا لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’’گلے پر چاقو سے حملہ کیے جانے کے دو منٹ کے اندر ہی اس کی موت ہو گئی، کیونکہ اس کی سانس کی نلی کٹ گئی تھی۔‘‘ ایسے میں ان دعوؤں کی حقیقت جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی؟ ایک ٹیچر نے پردیومن کے دوست سے پانی کی ایک بوتل دھونے کے لیے کہا کیونکہ اس پر خون لگ گیا تھا۔ کیا ایسا کر کے کسی ثبوت کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی؟

Published: 16 Sep 2017, 4:19 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 16 Sep 2017, 4:19 PM IST