قومی خبریں

کشمیری پنڈتوں کے قتل عام کا قصوروار پایا جاؤں تو کہیں بھی پھانسی پر لٹکا دو: فاروق عبداللہ

بی جے پی کے الزامات پر جوابی حملہ کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’الزام تو لگتے رہتے ہیں، لیکن اس پورے معاملے کا سچ سامنے لانے کے لیے ایک کمیشن بنا کر جانچ کروانی چاہیے۔‘‘

فاروق عبداللہ، تصویر آئی اے این ایس
فاروق عبداللہ، تصویر آئی اے این ایس 

کشمیری پنڈتوں کے قتل عام کے مسئلہ پر بی جے پی اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ آمنے سامنے آگئے ہیں۔ بی جے پی کے الزامات پر جوابی حملہ کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ الزام تو لگتے رہتے ہیں لیکن اس پورے معاملے کا سچ سامنے لانے کے لیے ایک کمیشن بنا کر جانچ کروانی چاہیے۔ ان پر بی جے پی کے ذریعہ لگائے گئے الزام کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے دہرایا کہ جانچ کمیشن بنایا جائے جہاں وہ اپنی بات رکھنے کو تیار ہیں۔ حالانکہ ذمہ داری کو لے کر بی جے پی کے ذریعہ لگائے گئے الزامات پر میڈیا کے ذریعہ لگاتار سوال پوچھے جانے پر فاروق عبداللہ ناراض ہوتے بھی نظر آئے۔

Published: undefined

فاروق عبداللہ نے منگل کے روز کہا کہ اگر انھیں 1990 میں ہوئے قتل کا قصوروار پایا جاتا ہے تو پھر ملک میں کہیں بھی پھانسی پر لٹکا دیا جائے، وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ انڈیا ٹوڈے ٹی وی چینل سے بات چیت میں عبداللہ نے کہا کہ ’’سچ باہر آ جائے گا، اگر آپ اس کی جانچ کے لیے کسی ایماندار جج کو مقرر کریں اور کمیٹی بنائیں۔ آپ جان جائیں گے کہ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے۔‘‘

Published: undefined

دراصل بی جے پی آئی ٹی سیل کے ہیڈ امت مالویہ نے فاروق عبداللہ کے ذریعہ پیش کیے گئے جموں و کشمیر مہاجر غیر منقولہ ملکیت ایکٹ کے دستاویز کو شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ کر یہ الزام لگایا تھا کہ ان کے وزیر اعلیٰ کے دور میں ہی کشمیری پنڈتوں کا قتل عام شروع ہو گیا تھا۔ مالویہ نے ٹوئٹ کر لکھا کہ ’’عمر نے دعویٰ کیا کہ ان کے والد فاروق عبداللہ قتل عام کے لیے ذمہ دار نہیں تھے۔ یہ جھوٹ تھا۔ یہ فاروق عبداللہ کے ذریعہ پیش کیا گیا جموں و کشمیر مہاجر غیر منقولہ ملکیت قانون ہے، جس میں ہجرت کے لیے کٹ آف کی تاریخ یکم نومبر 1989 ہے۔‘‘ مالویہ نے اس کے لیے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے آگے لکھا کہ 18 جنوری 1990 کو وزیر اعلیٰ عہدہ سے استعفیٰ دینے تک انھوں نے ان 79 دنوں میں کیا کیا؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined