قومی خبریں

زرعی قوانین کو لے کر کسانوں کے نشانے پر کارپوریٹ، پنجاب میں کئی جگہ امبانی-اڈانی کے اداروں میں کام ٹھپ

گزشتہ ایک ہفتہ کےد وران کسانوں نے پنجاب کے برنالہ، لدھیانہ اور مُلن پور میں ایک طرح سے ریلائنس کے پٹرول پمپوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہیں لدھیانہ میں ریلائنس کے ایک اسٹور کو بند کرا دیا ہے۔

تصویر وشو دیپک
تصویر وشو دیپک 

مرکزی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف کھڑی تحریک اب کارپوریٹ مخالف تحریک بنتی جا رہی ہے۔ اسے آزادی کے بعد کسانوں کا کارپوریٹ کے خلاف پہلے زرعی تحریک کا نام دیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں تو کسانوں نے اب کھل کر امبانی اور اڈانی گھرانوں کے اداروں کے خلاف آواز بلند کر دی ہے۔

Published: undefined

اس تحریک میں 31 کسان تنظیمیں شامل ہیں۔ کسانوں نے کئی مقامات پر ریلائنس پٹرول پمپ پر قبضہ کر لیا ہے اور ٹیلی کام خدمات جیو کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ وہیں پنجاب کے موگا ضلع میں اڈانی گروپ کو اپنا آپریشن بند کرنے پرمجبور کر دیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران کسانوں نے پنجاب کے برنالہ، لدھیانہ اور مُلن پور میں ایک طرح سے ریلائنس کے پٹرول پمپوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہیں لدھیانہ میں ریلائنس کے ایک اسٹور کو بند کرا دیا ہے۔

Published: undefined

غور طلب ہے کہ سنگرور میں کسان گزشتہ کئی دنوں سے تحریک کر رہے ہیں۔ ان کسانوں نے ایک ٹول پلازہ پر قبضہ بھی کر رکھا ہے۔ تحریک میں شامل ایک کسان کا کہنا ہے کہ "ریلائنس گروپ کے خلاف کسانوں کا غصہ دیکھتے ہوئے ریلائنس اسٹور اور ریلائنس پٹرول پمپوں کے ملازمین نے خود ہی اسے بند کر دیا اور تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ وہیں دوآبہ علاقہ میں اب ریلائنس کے پٹرول پمپوں اور جیو کا بائیکاٹ بھی شروع ہو گیا ہے۔"

Published: undefined

اس سلسلے میں بھارتیہ کسان یونین (ڈکونڈا) کے جنرل سکریٹری جگموہن سنگھ پٹیالہ کہتے ہیں کہ "ہمارا ماننا ہے کہ جو نئے زرعی قانون بنائے گئے ہیں وہ زرعی علاقہ میں ریلائنس کی آمد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ ایسا دھندا ہے جس میں کبھی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ ہر کسی کو کھانا، پھل، سبزی چاہیے۔ زرعی سیکٹری کا کارپوریٹائزیشن کیے جانے کے خلاف کسان ریلائنس کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔"

Published: undefined

یہ پوچھے جانے پر کہ مودی حکومت نے کسانوں اور وزیر اعظم کی میٹنگ کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو ہی فائدہ وہگا، جگموہن کہتے ہیں "اندھ بھکتی اور بے شرمی نے کھیتی کسانی کو کارپوریٹ کے حوالے کرنے کے مودی حکومت کے قدم کے خلاف ہی ہم سڑک پر اترے ہیں۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ان قوانین کو پاس نہ کیا جائے، لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی۔ ایسے میں ہم وزیر اعظم کے علاوہ کسی سے بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔" انھوں نے بتایا کہ "14 اکتوبر کو ہماری میٹنگ ہے جس میں ہم آگے کی پالیسی پر غور کریں گے۔" انھوں نے مزید کہا کہ کسان تنظیم ریلوے کو کچھ چھوٹ دینے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ اس سے عام لوگوں اور کسانوں دونوں کو تکلیف ہوتی ہے۔

Published: undefined

اڈانی گروپ کو بھی کسانوں کے غصے کا شکار ہونا پڑا۔ پنجاب کے موگا ضلع میں تقریباً 500 کسانوں نے گزشتہ دو ہفتہ سے اڈانی گروپ کے ایک ادارہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بھارتیہ کسان یونین (ایکتا) کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ کوکری کہتے ہیں کہ جب تک نئے زرعی قوانین واپس نہیں لیے جاتے، تحریک جاری رہے گی۔ اس تحریک کو لے کر مودی حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ وہیں پنجابی گلوکاروں نے مودی حکومت کے فیصلوں سے خراب ہوئی کسانوں کی حالت ظاہر کرتے ہوئے گیت بھی بنائے ہیں۔ تحریک والے مقامات پر ان گیتوں کے ذریعہ کسانوں کا جوش بڑھایا جا رہا ہے۔

Published: undefined

لدھیانہ میں رہنے والے جے این یو کے سابق پروفیسر چمن لال کا کہنا ہے کہ "کسان تحریک میں کارپوریٹ کے خلاف بنتا ماحول اس تحریک میں بایاں محاذ تحریک کی موجودگی کے سبب ہے۔ دراصل اس تحریک کی شروعات ہی بایاں محاذ پارٹیوں نے کی جن کی پنجاب میں اچھی موجودگی ہے۔" وہ مزید کہتے ہیں کہ "اوپر سے دیکھنے میں یہ کسان تحریک ہی لگے گی، لیکن اب یہ ایک بڑی ثقافتی تحریک بن گئی ہے جس میں ہر آدمی اس کارپوریٹ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے جو وسائل کا نقصان پہنچا رہا ہے اور بازار پر قبضہ کر رہا ہے۔"

Published: undefined

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے صحافی شیویندر کہتے ہیں کہ "کسانوں کی تحریک ایک خطرناک رخ کی طرف بڑھ رہی ہے، کیونکہ ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ کسانوں کو لگتا ہے کہ ریلائنس اور اڈانی گروپ کے دباؤ میں مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔" شیویندر کہتے ہیں کہ ابھی شروعات ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی زرعی پارٹی بھی ہمارے سامنے ہو۔

Published: undefined

غور طلب ہے کہ مودی حکومت نے گزشتہ دنوں زرعی قوانین کو راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی زبردست مخالفت اور بغیر کسی ووٹنگ کے پاس کرا لیا تھا۔ ان قوانین کے تحت اب کسانوں کو ان کی پیداوار کہیں بھی بازار میں فروخت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، لیکن اس کا اثر یہ ہوگا کہ منڈی نظام ختم ہو جائے گا اور ایم ایس پی کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے، کیونکہ حکومت نے ان قوانین میں ایم ایس پی کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined