قومی خبریں

سی اے اے احتجاج: فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ’یوگی کی پولیس‘ پر لگے متعدد الزامات

سی اے اے مظاہرہ کے درمیان ہوئے تشدد میں ہلاک 16 لوگوں میں سے صرف ایک شخص کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دی گئی ہے جس میں گولی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے کئی ثبوت موجود ہیں کہ سبھی گولی لگنے سے ہلاک ہوئے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

لکھنؤ: اترپردیش کے مختلف اضلاع میں شہریت (ترمیمی) قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف گزشتہ 19/20 دسمبر کو کئے گئے احتجاجی مظاہروں کے درمیان ہونے تشدد پر کاروان محبت کی ٹیم نے یوپی پریس کلب میں ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی۔ اترپردیش میں گزشتہ 19/20 دسمبر کو صوبہ کے مختلف مقامات میں سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ جس میں تقریبا 23 افراد جان بحق ہوئے تھے۔ شرپسند عناصر کی جانب سے آگ زنی اور پتھر بازی بھی ہوئی تھی تو پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے تھے۔ بعد میں پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے مظاہرے میں ملوث ہونے کے پاداش میں متعدد افراد کو گرفتار اور پبلک پراپرٹی کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر مبینہ مظاہرین کے نام ریکوری نوٹس جاری کی گئی ہے۔

Published: undefined

اس پورے معاملے میں یوپی پریس کلب میں کاروان محبت اور یوپی کوآرڈینیش کمیٹی اگینسٹ سی اے اے، این آر سی اینڈ این پی آر کے بینر تلے منعقد پروگرام میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے سابق آئی اے ایس و معروف سماجی کارکن ہرش مندر نے الزام عائد کیا کہ ریاستی انتظامیہ نے تشدد کو قابو میں کرنے کے لئے جو طریقہ استعمال کیا ہے وہ اس تشدد سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے۔ انہوں نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر ’اشتعال انگیز‘ زبان کا استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے دعوی کیا کہ وہ اپنی مخالفت میں اٹھنے والی ہرآواز کو دبانا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ پرتشدد جھڑپوں میں پولیس نے اقلیتوں کے خلاف مبینہ بربریت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اترپردیش میں ایک نیا پیٹرن دیکھنے کو ملا ہے۔

Published: undefined

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں دعوی کیا گیا ہے کہ مظفر نگر، میرٹھ، سنبھل اور فیروزآباد میں متأثرین سے ملاقات کے دوران جانچ ٹیم نے پایا کہ پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی، ان کے اسکوٹر-کاروں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ ٹی وی، واشنگ مشین جیسے آلات کو پوری طرح سے تباہ کر دیا۔ رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پولیس کو روکنے کی کوشش کرنے پر گھر کے بزرگوں، خواتین اور یہاں تک معصوم بچوں پر بھی پولیس نے لاٹھیاں برسائیں فرقہ وارانہ نعرے لگائے۔

Published: undefined

رپورٹ کے دعوؤوں کے مطابق مظفر نگر، میرٹھ، سنبھل اور فیروزآباد میں کل 16 افراد کی موت سینے سے اوپر گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ مہلوکین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی تک اہل خانہ کو نہیں سونپی گئی ہے۔ 16 میں سے صرف ایک شخص کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دی گئی ہے جس میں گولی کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ ٹیم کے پاس وافر ثبوت موجود ہیں کہ سبھی افراد کی اموات گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

Published: undefined

رپورٹ میں الزام لگا یا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے تشدد کے الزام میں گرفتار کئے گئے افراد کے خلاف تھانوں میں ٹارچر کئے جانے اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے زخمیوں کے ساتھ سلوک ایک طے شدہ پیٹرن کے مطابق کیا گیا ہے اور اس میں تمام حدود کو توڑ دیا گیا ہے۔رپورٹ دعوی کرتی ہے کہ ڈاکٹروں نے ہر مریض کے علاج کرنے کے قسم کھانے کے دھرم کو نہیں نبھایا ہے۔

Published: undefined

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ یو پی کے حقیقی صورتحال سے آگاہی کے لئے دہلی میں 16 جنوری کوجسٹس سدھا شرن ریڈی کی قیادت میں منعقد پبلک ٹریبونل میں گواہوں کو سننے اور رپورٹوں کو دیکھنے بعد ٹریبونل نے اپنے احساسات میں کہا کہ’’ جیوری کہ اگرچہ قانونی اہمیت کافی کم ہو لیکن اس کی اخلاقیت کافی طاقت ور ہے۔رپورٹ میں جیوری کے حوالے سے دعوی کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کے اوپر سے لے کر نیچے تک کے پورے عملے نے ایک مخصوص طبقے اور مظاہرین کی قیادت کررہے سماجی کارکنوں کے خلاف مبینہ طور سے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔

Published: undefined

رپورٹ میں پولیس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعوی کیا گیا ہے کہ پولیس نے نہ صرف عام لوگوں کے ساتھ تشدد کیا بلکہ بے گناہو اور کارکنوں کو جھوٹے مقدمے میں پھنسانے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔پولیس نے نابالغوں اور بچوں تک کو اپنی حراست میں لے کر ان کی مبینہ طور سے پٹائی کی ہے ۔میڈیکل ملازمین کو علاج کرنے سے روکا گیا ہے۔اور حکومت کی جانب سے دفعہ 144 کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے۔ ’’ریاستی منصوبہ بند تشدد سے ہلکان اترپردیش کی عوام‘‘ کے نام سے پیش کی گئی اس طویل تفصیل رپورٹ کو سابق آئی اے ایس وسماجی کارکن ہرش مندر اور نورشن سنگھ کی نگرانی میں تیار کیا گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined