قومی خبریں

فوج کو 32 سال دینے کے باوجود محمد ثناء اللہ ٹھہرائے گئے غیر ملکی

محمد ثناء اللہ اوران کی بیوی و3 بچوں کا نام سٹیزن شپ رجسٹر میں شامل نہیں ہے جس کی وجہ سےانھیں غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔ پولس نے ثناءاللہ اور ان کی فیملی کو حراست میں لے لیا ہے جس سے وہ کافی مایوس ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

محمد ثناء اللہ نے ہندوستانی فوج میں 32 سال کام کیا ہے اور کیپٹن کے عہدہ پر رہتے ہوئے وہ ریٹائر ہوئے۔ لیکن اب انھیں غیر ملکی قرار دیا جا رہا ہے۔ صرف انھیں ہی نہیں، ان کی پوری فیملی کو ہی غیر ملکی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ سب این آر سی کے تحت ہو رہا ہے۔ این آر سی یعنی قومی شہریت رجسٹر (نیشنل رجسٹر آف سٹیزن)، جس نے آسام میں کئی حیران کرنے والی باتیں سامنے لائی ہے۔ محمد ثناء اللہ کا واقعہ بھی حیران کرنے والا ہی ہے جنھیں غیر ملکی قرار دیتے ہوئے پولس نے اپنی حراست میں لے لیا ہے۔

Published: 29 May 2019, 11:10 PM IST

میڈیا ذرائع کے مطابق ثناء اللہ جموں و کشمیر اور نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کے کاؤنٹر ایمرجنسی آپریشنز (انسداد دراندازی مہم) کا حصہ رہ چکے ہیں اور فوج کو 32 سال تک اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے والنٹیری ریٹائرمنٹ کے بعد ایس آئی بارڈر پولس کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ثناء اللہ کو ہندوستانی تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ ثناء اللہ کے ساتھ ساتھ ان کی بیوی اور 3 بچوں کو بدھ کے روز حراست میں بھیج دیا گیا۔

Published: 29 May 2019, 11:10 PM IST

دراصل ثناء اللہ اور ان کی فیملی میں سے کسی کا بھی نام این آر سی میں موجود نہیں تھا اور یہ کیس سال 2008 میں بوکو فارنرس ٹریبونل میں درج کیا گیا تھا۔ فوجی ترجمان نے اس سلسلے میں آسام پولس سے بات چیت کی ہے اور ثناء اللہ کی فیملی سے بھی بات چیت کی جا رہی ہے۔ لیکن جس طرح سے ثناء اللہ کو غیر ملکی قرار دے کر حراست میں لیا گیا ہے، اس سے مقامی لوگوں میں حیرانی اور مایوسی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ویسے ثناء اللہ کی طرح ہی کئی دیگر معاملے بھی سامنے آ چکے ہیں۔

Published: 29 May 2019, 11:10 PM IST

واضح رہے کہ آسام ملک کی ایسی واحد ریاست ہے جہاں سٹیزن شپ رجسٹر کا نظام موجود ہے۔ غور طلب ہے کہ آسام سمجھوتہ سال 1985 سے ہی نافذ ہے اور اس سمجھوتہ کے تحت 24 مارچ 1971 کی نصف شب تک آسام میں داخل ہونے والے لوگوں کو ہی ہندوستانی تصور کیا جائے گا۔ این آر سی کے مطابق جس شخص کا سٹیزن شپ رجسٹر میں نام نہیں ہوتا ہے، اسے ہندوستان کا شہری تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس رجسٹر کو 1951 کی مردم شماری کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ اس میں آسام کے ہر گاؤں کے ہر گھر میں رہنے والے لوگوں کے نام اور ان کی تعداد درج کی گئی ہے۔

Published: 29 May 2019, 11:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 29 May 2019, 11:10 PM IST