بندرگاہ پر موجود الیکٹرک کاریں، تصویر سوشل میڈیا
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان تو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کر دیا ہے، لیکن حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسرائیل اب ایران پر حملہ نہیں کرے گا، اور ایران نے تو پہلے ہی جنگ بندی کو ’تھوپا ہوا‘ قرار دیا ہے۔ بہرحال، جنگ بندی کے باوجود اسرائیل کے لیے اس کی بندرگاہوں پر موجود الیکٹرک کاریں خوف کا سبب بن رہی ہیں۔ اسے ڈر ہے کہ ایران کبھی بھی ان الیکٹرک کاروں کو تباہی کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی افسران نے فکر کا اظہار کیا ہے کہ اگر ایران کی طرف سے کوئی میزائل حملہ ہوتا ہے اور وہ کسی بندرگاہ پر کھڑی ان الیکٹرک گاڑیوں کو نشانہ بناتا ہے تو خوفناک آگ لگ سکتی ہے، جسے بجھانا تقریباً ناممکن ہوگا۔ ایسے میں یہ خطرہ ملک کے اہم بنیادی اسٹرکچر جیسے بندرگاہ اور لاجسٹکس ہَبس کے لیے تباہناک ہو سکتا ہے۔ ’دی میریٹائم ایگزیکٹیو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ’ایڈمنسٹریشن آف شپنگ اینڈ پورٹس‘ نے ملک کی سبھی کار درآمد کرنے والی کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی الیکٹرک گاڑیوں کو بندرگاہوں سے ہٹا کر کھلے اور محفوظ مقامات پر منتقل کریں۔ خاص طور سے حائفہ اور اشدود بندرگاہ کو اس فیصلے میں ترجیح دی گئی ہے۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ حائفہ بندرگاہ اسرائیل کی سب سے مصروف بندرگاہ ہے۔ یہاں ہر سال تقریباً 20 ملین ٹن مال کی درآمد و برآمد ہوتی ہے، اور یہ ایران جیسے دشمن ملک کے لیے ایک پرکشش ہدف بھی ہے۔ توجہ طلب یہ بھی ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات گزشتہ دہائی کے دوران دنیا بھر میں دیکھنے کو ملے ہیں۔ حالانکہ پٹرول یا ڈیزل گاڑیوں کے مقابلے الیکٹرک گاڑیوں میں آگ لگنے کا امکان کم مانا جاتا ہے، لیکن جب بھی ایسا ہوتا ہے تو سنگین صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں میں آگ لگنے پر زیادہ گرمی پیدا ہوتی ہے، جس سے آگ کی شدت بے قابو ہو جاتی ہے اور اسے بجھانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کو بندرگاہوں سے ہٹا کر دور محفوظ مقامات پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined