قومی خبریں

مرکز میں آنے سے پرہیز کر رہے ریاستی افسران، مودی حکومت کے لیے کھڑی ہو سکتی ہیں مشکلیں

مودی حکومت میں وزارتوں میں ’ورک کلچر‘ تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوکرشاہ اپنے اصل کیڈر ریاستوں سے مرکز میں ڈیپوٹیشن پر آنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

مرکزی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر سنٹرل ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) افسروں کی زبردست قلت آنے والے دور میں حکومت کے کام کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ آئی اے ایس طبقہ کے کئی عہدوں پر ریلوے، انجینئرنگ اور اکونومک سیکشن کے افسران سے کام چلایا جا رہا ہے۔ مودی حکومت کی مشکلیں اس لیے زیادہ بڑھ رہی ہیں، کیونکہ بدحال معاشی حالات اور مرکزی منصوبوں کا زمین پر عمل درآمد کئی سیکٹرس میں پچھڑ رہا ہے۔ مرکز کی زیادہ تر وزارتوں میں ورک کلچر تقریباً ختم ہونے کے دہانے پر پہنچنے سے نوکرشاہ ریاستوں کے اپنے اصل کیڈر سے مرکز میں ڈیپوٹیشن پر آنے سے بالکل پرہیز کر رہے ہیں۔

Published: undefined

راجدھانی میں نوکرشاہی کے حلقوں میں اس بات کو لے کر زبردست فکر ہے کہ مرکزی حکومت میں اہم ریاستوں کے آئی اے ایس افسران کا زبردست عدم توازن ہو گیا ہے۔ جیسے کہ بہار کیڈر کے 74 آئی اے ایس افسروں کے لیے مرکز میں ڈیپوٹیشن ریزرو ہے، لیکن اس کے مقابلے صرف 38 افسر ہی مرکز میں تعینات ہیں۔ گجرات کے بارے میں بھلے ہی یہ غلط فہمی ہو کہ وہاں کےا فسران کو دہلی لا کر یہاں اہم عہدوں پر بٹھایا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 64 کے مقابلے صرف 17 آئی اے ایس افسر ہی مرکز میں تعینات ہیں۔ گجرات میں نوکرشاہی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی کی دوسری اننگ سے پہلے ہی افسروں نے دہلی میں تعیناتی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا۔

Published: undefined

ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کیڈر کے افسران کی دہلی میں تعیناتی کا تناسب 134 کے مقابلے محض 44 ہے۔ یہی حال باقی ریاستوں کا بھی ہے۔ خاص طور پر جنوبی ہند ریاستوں، مثلاً تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالہ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کا سنٹرل ڈیپوٹیشن کے تناسب کی تو حالت مزید بری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جو افسر ڈیپوٹیشن پر آ بھی رہے ہیں، تو وہ محض فیملی وجوہات سے دہلی میں رہنا پسند کر رہے ہیں۔ یا تو ان کے بچے دہلی کے اسکول و کالجوں میں پڑھ رہے ہیں یا دوسری الگ وجوہات ہیں۔

Published: undefined

مرکزی حکومت کی نوکرشاہی کے گلیاروں میں یہ بحث اب عام ہو گئی ہے کہ آئی این ایکس معاملہ کے بعد جس طرح سے بے قصور نوکرشاہوں کو اتنے سال بعد پھنسایا گیا ہے، اس کے بعد کوئی بھی حکومت کے کسی چنگل میں نہیں آنا چاہے گا۔ نوکرشاہوں کی اس مایوس کن روش سے کئی سطحوں پر حکومت کا پالیسی پر مبنی کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ نوکرشاہی پر بے وجہ دباؤ بنانا، زمینی نتائج نہ ملنے پر انھیں پی ایم او کا ظلم برداشت کرنے کو مجبور کیا جانا عام سی بات ہو گئی ہے۔

Published: undefined

مودی حکومت کی پہلی اننگ کے آخر میں ہی نوکرشاہوں نے دہلی سے اپنے اصل کیڈر میں لوٹنے کی دوڑ لگا دی تھی، کیونکہ انھیں پتہ تھا کہ دوسری اننگ کی مشکلوں اور کام کے دباؤ کو وہ برداشت نہیں کر پائیں گے۔ کئی سالوں سے نوکرشاہی کو قریب سے جاننے والے ایک اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مفاد عامہ کے معاملوں پر حکومت کے سکریٹری اور ایڈیشنل سکریٹری سطح کے افسر اہم جانکاریوں کو شیئر کرنے میں جھجکتے نہیں تھے۔ اب حالات بالکل برعکس ہیں۔ مودی حکومت کی پالیسیوں کے اچھے رخ کے بارے میں بھی کوئی نوکرشاہ بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔

Published: undefined

گزشتہ مالی سال کے اعداد و شمار حیران کرنے والے ہیں۔ پوری حکومت میں صرف 153 آئی اے ایس افسر ہی مودی حکومت میں تھے۔ یہ تعداد گزشتہ کئی سالوں میں سب سے کم ہے۔ معلوم ہو کہ پورے ملک میں آئی اے ایس افسروں کی کل منظور شدہ تعداد یکم جنوری 2019 تک 6500 ہے۔ ان میں سے 1381 نوڈل افسران کے عہدے ہیں، جن میں عام طور پر آئی اے ایس افسروں کو ہی تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن گزشتہ 10 ماہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے مقابلے صرف 507 آئی اے ایس افسروں کو ہی مرکز میں پوسٹنگ ملی ہے۔ یہ جانکاریاں مرکزی وزارت برائے پرسونل کی ہیں۔

Published: undefined

یہ ایک روایت ہے کہ سال میں دو بار ریاستوں سے قابل اور تجربہ کار افسران کو مرکز میں ڈیپوٹیشن پر بھیجنے کا عمل ہوتا ہے، جس سے اہل افسروں کو مرکزی حکومت میں کام کرنے کے لیے حوصلہ بخشا جاتا ہے۔ ان میں ڈپٹی سکریٹری سے لے کر ڈائریکٹر، جوائنٹ سکریٹری سے لے کر اس سے اعلیٰ عہدوں کے افسر شامل رہتے ہیں۔ ریاستوں میں ایسے تجربہ کار افسران کے تجربات کا فائدہ اٹھا کر حکومت اپنی پالیسیاں بنانے اور انھیں نافذ کرنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہناتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined