
عمر خالد اور شرجیل امام، تصویر سوشل میڈیا
دہلی فساد سازش معاملے میں عمر خالد، شرجیل امام اور گلفشاں فاطمہ سمیت دیگر کی ضمانت عرضیوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹن این وی انجریا کی بنچ نے دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کو ضمانت خارج کرنے کے حکم کے خلاف سماعت مکمل کر لی۔ عرضی گزاروں نے 5 سال سے زائد کی حراست، ٹرائل میں تاخیر اور تشدد کے لیے اکسانے کے ثبوت نہ ہونے کی دلیل دی ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف دہلی پولیس نے دہلی فسادات کو تبدیلیٔ حکومت اور معیشت کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے بنی ملک گیر ’پین انڈیا‘ سازش قرار دیا۔ عدالت میں اپنی بات رکھتے ہوئے پولیس نے واٹس ایپ گروپ، ڈی پی ایس جی اور جامعہ اویرنس کیمپین ٹیم کا حوالہ دیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ تاخیر عرضی گزاروں کی وجہ سے ہوئی ہے، تعاون کرنے پر ٹرائل 2 سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
اس سے قبل کی سماعت میں شرجیل امام نے کہا تھا کہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں ہیں۔ شرجیل امام نے بغیر کسی مکمل سماعت یا سزا کے بغیر خطرناک تعلیم یافتہ دہشت گرد قرار دیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ عمر خالد نے کہا تھا کہ جب فساد ہوئے تھے تو وہ دہلی میں ہی نہیں تھے۔
Published: undefined
عدالت میں شرجیل امام کی جانب سے پیش ہوئے وکیل سدھارتھ دوے نے کہا کہ ’’میں کہنا چاہوں گا کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں، جیسا کہ پولیس نے میرے بارے میں کہا ہے۔ میں کوئی ملک مخالف نہیں ہوں، جیسا ریاست کی جانب سے کہا گیا ہے۔ میں پیدائشی طور پر اس ملک کا شہری ہوں۔ اب تک مجھے کسی بھی جرم کے لیے قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریہ کی بنچ کے سامنے دلیل پیش کرتے ہوئے وکیل سدھارتھ دوے نے کہا کہ ’’شرجیل امام کو فساد سے کچھ روز قبل ہی 28 جنوری 2020 کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ایسے میں تقریروں کی بنیاد پر فسادات کے متعلق کسی بھی طرح کی مجرمانہ سازش کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف مارچ 2020 میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined