قومی خبریں

‘عدالتیں ضمانت کی درخواستوں سے بھر گئی ہیں‘ چیف جسٹس چندرچوڑ نے بتایا جج ضمانت دینے سے کیوں کتراتے ہیں!

سی جے آئی چندرچوڑ نے کہا کہ نچلی عدالتون کے جج ضمانت دینے سے جھجکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ انہیں معاملوں کی سمجھ نہیں ہے

جسٹس چندر چوڑ
جسٹس چندر چوڑ 

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندر چوڑ کی پوری توجہ لوگوں کو کم وقت میں انصاف دلانے پر ہے۔ اپنے پیشرو جسٹس یو یو للت کی طرح وہ بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ سی جے آئی چندر چوڑ نے حال ہی میں 70000 زیر التواء مقدمات کو ختم کرنے کا ایک طریقہ تلاش کیا ہے۔ انہوں نے ایک اصول بنایا ہے کہ اب ہر روز 10-10 ضمانت کی درخواستیں اور 10-10 ٹرانسفر کیس سپریم کورٹ کے تمام 13 بنچوں کے سامنے سماعت کے لئے درج ہوں گے۔

Published: undefined

سی جے آئی نے کہا، "نچلی عدالتوں کی طرف سے ضمانت سے انکار کی وجہ سے اعلیٰ عدالتیں ضمانت کی درخواستوں سے بھر گئی ہیں۔ نچلی عدالتوں کے جج ضمانت دینے سے کتراتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ معاملات کو نہیں سمجھتے، بلکہ گھناؤنے جرائم میں ضمانت دے کر نشانہ بننے سے ڈرتے ہیں۔ سی جے آئی چندرچوڑ نے یہ باتیں دہلی بار کونسل آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقدہ اعزازیہ تقریب میں کہیں۔ اس پروگرام میں مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے بھی شرکت کی۔

Published: undefined

اس سے قبل سی جے آئی چندرچوڑ نے سپریم کورٹ کی ہر بنچ میں روزانہ 10-10 ضمانت کی درخواستوں اور 10-10 ٹرانسفر کیسوں کی سماعت کرنے کا اصول بنایا ہے۔ اس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں ضمانت اور کیس ٹرانسفر سے متعلق 130-130 کیسز کی روزانہ سماعت ہوگی۔ ایک ہفتے میں 650-650 زیر التوا مقدمات کی سماعت کی جائے گی۔ اس سے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی۔

Published: undefined

انہوں نے کہا تھا کہ مقدمات کو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں منتقل کرنے کی 3000 سے زیادہ درخواستیں زیر التوا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق شادی کے تنازعات سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہر بنچ ایک ہفتے میں 650 مقدمات کی سماعت کرے گی تو ان تمام مقدمات کی سماعت ایک سال میں مکمل ہو جائے گی۔ اس سے زیر التوا مقدمات کو نمٹانے میں آسانی ہوگی اور عوام کو انصاف کی فراہمی میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

Published: undefined

خیال رہے کہ سابق سی جے آئی یو یو للت بھی زیر التواء کیس کو سلجھانے پر زور دیتے تھے۔ چیف جسٹس کے طور پر اپنے 74 دن کے مختصر دور میں انہوں نے زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کے لیے بہت سے اصول وضع کیے تھے۔ اس نے روزانہ سماعت کے لیے مقدمات کی تعداد بڑھا دی تھی۔ تاہم اس کی وجہ سے ججوں پر کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ جسٹس سنجے کول کی سربراہی والی بنچ نے 13 ستمبر کو یہاں تک کہا تھا کہ اس اصول کے سبب نئے مقدمات کی سماعت کے لیے وقت نہیں مل رہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined