قومی خبریں

انڈر ورلڈ کنکشن معاملے میں نواب ملک سمیت تمام ملزمین کے خلاف 18 نومبر کو دائر ہوگی فرد جرم

ملک کے وکیل طارق سید نے دلیل دی کہ ای ڈی نے عدالت میں کئی ایسے دستاویزات پیش نہیں کیے جو ملزم کے حق میں ہوں۔ اگر ضبط شدہ تمام دستاویزات پیش کئے جائیں تو الزام طے کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

 

ممبئی کی خصوصی پی ایم ایل اے (پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ) عدالت نے مہاراشٹر کے سابق وزیر اور این سی پی لیڈر نواب ملک سے متعلق منی لانڈرنگ معاملے میں ڈسچارج درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک سمیت تمام ملزمین کو 18 نومبر کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے عدالت میں موجود رہنے کا حکم دیا۔

Published: undefined

ڈسچارج کی درخواست ملک کی کمپنی ’ملک انفراسٹرکچر‘ نے دائر کی تھی۔ کمپنی نے استدلال کیا کہ ای ڈی کا پورا معاملہ ’اندازوں اور قیاس آرائیوں‘ پر مبنی ہے کیونکہ جس وقت مبینہ طور پر غیر قانونی لین دین ہوا، تب کمپنی موجود نہیں تھی۔ خصوصی جج ستیہ نارائن آر نویندر نے کہا کہ الزامات طے کرنے کے لیے کافی بنیادی ثبوت موجود ہیں۔

Published: undefined

عدالت نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ نواب ملک نے حسینہ پارکر، سلیم پٹیل اور ڈی کمپنی سے وابستہ ملزم سردار خان کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے پلاٹوں کو قانونی شکل دینے میں حصہ لیا، جو’جرم سے حاصل رقم‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

Published: undefined

ملک نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ الزامات طے کرنے میں 6 ہفتوں کے لیے تاخیر کی جائے۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ بمبئی ہائی کورٹ میں داخل ان کی درخواست پر جلد ہی سماعت ہونے والی ہے، اس لیے نچلی عدالت کو فیصلہ آنے تک انتظار کرنا چاہیے۔ ملک کے وکیل طارق سید نے دلیل دی کہ ای ڈی نے عدالت میں کئی ایسے دستاویزات پیش نہیں کیے جو ملزم کے حق میں ہوں۔ اگر ضبط شدہ تمام دستاویزات پیش کئے جائیں تو الزام طے کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Published: undefined

حالانکہ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنیل گونسالویس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اس معاملے پر کوئی اسٹے نہیں دیا ہے، اس لیے سماعت کو روکا نہیں جا سکتا۔ آخر کارعدالت نے ای ڈی کے دلائل قبول کرتے ہوئے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ اورممبران اسمبلی سے متعلق معاملوں کو تیزی سے نپٹانے کے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات ہیں، اس لیے عدالت خود اس کیس کو ملتوی نہیں کر سکتی۔ اس بنیاد پر ملک کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

Published: undefined