بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) کے دوران، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس میں آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو شہریت کے ثبوت کے طور پر قبول کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ’لائیو لا‘ کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ان دستاویزات کی بنیاد پر کسی شخص کی شہریت کا تعین ممکن نہیں، کیونکہ آدھار خود شہریت کا ثبوت نہیں ہے اور مختلف عدالتیں بھی اس کی تصدیق کر چکی ہیں۔
Published: undefined
الیکشن کمیشن نے اپنے 21 جولائی کو سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامے میں واضح کیا ہے کہ ووٹر فوٹو شناختی کارڈ (ای پی آئی سی) خود اپنے اندر شہریت یا ووٹر بننے کی اہلیت کو ثابت نہیں کرتا، کیونکہ یہ پہلے سے موجود ووٹر لسٹ کی بنیاد پر جاری ہوتا ہے۔ اسی طرح کمیشن نے یہ بھی کہا کہ راشن کارڈوں میں بڑے پیمانے پر جعلسازی ہوئی ہے اور مرکز نے 5 کروڑ سے زائد فرضی کارڈ منسوخ کیے ہیں۔
Published: undefined
الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ آدھار جیسے دستاویزات دیگر دستاویزات کے ساتھ معاون حیثیت میں استعمال ہو سکتے ہیں لیکن انہیں حتمی یا لازمی شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ کمیشن نے زور دیا کہ دستاویزات کی فہرست صرف علامتی ہے اور انتخابی رجسٹریشن افسر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دیگر ثبوتوں کو بھی قبول کرے۔
کمیشن نے کہا کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کی غرض سے شہریوں سے شہریت سے متعلق مناسب دستاویزات طلب کرنا اس کا آئینی اختیار ہے، جو آئین کے آرٹیکل 324 اور 326 کے تحت اسے حاصل ہے۔ اس نے وضاحت کی کہ اگر کسی کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی شہریت ختم نہیں مانی جا سکتی لیکن ووٹر کے طور پر رجسٹریشن کے لیے شہریت کا دستاویزی ثبوت دینا ضروری ہے۔
Published: undefined
کمیشن کے مطابق، یکم جولائی 1987 سے قبل پیدا ہونے والوں کو صرف اپنی تاریخ یا مقام پیدائش کا ثبوت دینا ہے، 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والوں کو اپنے یا والدین میں سے کسی ایک کا اور 2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کو اپنے اور دونوں والدین کا شہریت سے متعلق ثبوت دینا ہوگا۔ تاہم کمیشن نے اس فرق کی وضاحت نہیں کی۔
الیکشن کمیشن نے اس امر کو بھی اجاگر کیا کہ پچھلی دو دہائیوں میں کوئی مکمل ووٹر لسٹ نظرثانی نہیں ہوئی، اس لیے اب ایک سخت اور زمینی سطح پر کی جانے والی مشق کی ضرورت ہے، تاکہ فہرستوں کی درستگی اور شفافیت بحال ہو سکے۔ اسی مقصد کے تحت ایس آئی آر شروع کیا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس عمل میں کئی سطحوں پر جانچ کی جاتی ہے تاکہ کسی کا نام غیر قانونی طریقے سے نہ ہٹایا جائے۔ یہ تنازعہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اگلی سماعت 28 جولائی کو مقرر ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز