قومی خبریں

بریلی تشدد: سماجوادی پارٹی کے وفد کو بریلی جانے سے روکا گیا، اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف ماتا پرساد پانڈے خانہ نظربند

بریلی تشدد کے متاثرین سے ملنے جا رہے سماجوادی پارٹی کے وفد کو پولیس نے روک دیا۔ قائد حزبِ اختلاف ماتا پرساد پانڈے کو خانہ نظربند کر دیا گیا جبکہ دیگر رہنماؤں کی سرگرمیوں کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>سماجوادی پارٹی / سوشل میڈیا</p></div>

سماجوادی پارٹی / سوشل میڈیا

 

لکھنؤ: اتر پردیش کے ضلع بریلی میں 26 ستمبر کو ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔ انہی حالات کے پیش نظر سماجوادی پارٹی کے اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف ماتا پرساد پانڈے آج یعنی 4 اکتوبر کو ایک وفد کے ساتھ متاثرین سے ملاقات کے لیے بریلی روانہ ہونا چاہتے تھے مگر انتظامیہ نے اس دورے پر روک لگا دی اور انہیں ان کی لکھنؤ واقع رہائش گاہ پر نظربند کر دیا۔

ذرائع کے مطابق بریلی کے ضلع مجسٹریٹ نے پہلے ہی پولیس کمشنر لکھنؤ سمیت متعدد اضلاع کے پولیس سربراہان کو تحریری ہدایت جاری کی تھی کہ کسی بھی سیاسی رہنما یا وفد کو بغیر اجازت بریلی کی حدود میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ اس اقدام کو علاقے کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔

Published: undefined

اسی حکم پر عمل کرتے ہوئے لکھنؤ پولیس نے ماتا پرساد پانڈے کو باضابطہ نوٹس تھما دیا اور ان کی رہائش گاہ کو پولیس اہلکاروں نے چاروں جانب سے گھیر لیا۔ اس موقع پر سماجوادی پارٹی کے کئی رہنما بشمول صوبائی جنرل سکریٹری، ان کی قیام گاہ پر پہنچے لیکن پولیس نے وفد کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔

اطلاعات کے مطابق سماجوادی پارٹی کے دیگر اراکینِ پارلیمنٹ ہریندر ملک، اقراء حسن، ضیاء الرحمان برق اور محب اللہ بھی بریلی جانے کے خواہاں تھے مگر انتظامیہ نے ان سب کی نقل و حرکت پر ان کے اپنے اضلاع میں ہی کڑی نظر رکھی۔ پولیس حکام کا مؤقف ہے کہ کسی بھی سیاسی سرگرمی سے موجودہ حساس حالات مزید بگڑ سکتے ہیں، اس لیے سخت اقدامات ضروری ہیں۔

Published: undefined

بریلی میں اس وقت سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے موقع پر شہر بھر میں پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات رہے۔ ڈرون کیمروں سے فضائی نگرانی کی گئی اور اہم داخلی و خارجی راستوں پر سخت جانچ پڑتال عمل میں لائی گئی۔

ادھر، سماجوادی پارٹی نے حکومت کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ پارٹی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ متاثرین سے ملنا اور ان کے مسائل کو ایوان میں اٹھانا اپوزیشن کی جمہوری اور آئینی ذمہ داری ہے مگر حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اپوزیشن کی آواز دبانے پر تُلی ہوئی ہے۔ پارٹی نے اس کارروائی کو جمہوری روایات کے منافی قرار دیا۔

Published: undefined

یہ پہلا موقع نہیں جب کسی سیاسی وفد کو فسادات کے بعد بریلی جانے سے روکا گیا ہو۔ ماضی میں بھی مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کو اسی طرح متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انتظامیہ کے مطابق فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد معمولی سی چنگاری بھی بڑے تصادم کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے ہر ممکن احتیاطی اقدام ناگزیر ہے۔

فی الحال انتظامیہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جب تک حالات مکمل طور پر قابو میں نہیں آ جاتے، کسی بھی سیاسی وفد کو متاثرہ علاقوں میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم اس فیصلے نے ریاستی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ اقدام امن قائم رکھنے کے لیے ہے یا اپوزیشن کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی ایک منظم حکمت عملی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined