قومی خبریں

کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں؟

فی الحال بچوں کے لیے زیادہ ویکسین دستیاب نہیں ہیں اور صرف چند ممالک نے بچوں کے لیے ویکسین شروع کی ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس  

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) یعنی عالمی طبی تنظیم کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے کہا کہ کووڈ 19 کے ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے اومیکرون ویرینٹ دوبارہ انفیکشن کرنے میں تین گنا زیادہ عام ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹر سوامیناتھن نے نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مختلف قسموں پر اعداد و شمار حاصل کرنے میں ابھی وقت لگے گا، لیکن اس وقت سائنسدان جو جانتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں اومیکرون ہے۔

Published: undefined

اومیکرون انفیکشن کی طبی خصوصیات کو سمجھنے کے یہ ابھی ابتدائی دن ہیں ۔ کیسوں میں اضافے اور ہسپتال میں داخل ہونے کے درمیان ایک وقفہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں داخل ہونے کی شرحوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دو سے تین ہفتوں تک انتظار کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ بیماری کتنی شدید ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ "جنوبی افریقہ میں اومیکرون کی مختلف قسموں کے ساتھ کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس ملک میں زیادہ بچے اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جنوبی افریقہ میں جانچ کی شرح زیادہ ہے ۔

Published: undefined

ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نشاندہی کی کہ فی الحال بچوں کے لیے زیادہ ویکسین دستیاب نہیں ہیں اور صرف چند ممالک نے بچوں کے لیے ویکسین شروع کی ہے اور اس کی وجہ سے کیسز میں ممکنہ اضافے پر خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’بچوں کے لیے زیادہ ویکسین دستیاب نہیں ہیں اور بہت کم ممالک بچوں کو ویکسین دیتے ہیں۔ جب کیسز بڑھتے ہیں تو بچے اور ٹیکے نہ لگوانے والے زیادہ انفیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہم اب بھی اعداد و شمار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ بچوں پر omicron کے مختلف اثرات کا نتیجہ نکالا جا سکے۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کو عمر اور علاقے کے لحاظ سے ویکسین کے ڈیٹا کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کا اندازہ لگایا جا سکے جو چھوٹ گئے ہیں اور ’’ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو ویکسین لگائی جائے تاکہ ٹرانسمیشن کو کم کیا جا سکے۔‘‘

Published: undefined

ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ ’’ہم وبائی مرض میں مزید ڈیٹا شیئرنگ چاہتے ہیں اور ہمیں ان ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف قسموں اور ڈیٹا کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ہمیں ممالک کے درمیان ایک مربوط معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ گھٹنے ٹیکنے والے ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined