
تصویر سوشل میڈیا
سپریم کورٹ نے ملک میں کسی بھی مذہبی مقام کی حیثیت تبدیل کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اس کے باوجود سنبھل کے بعد علی گڑھ کی جامع مسجد کا معاملہ بھی عدالت میں پہنچ گیا ہے۔ علی گڑھ کی یہ جامع مسجد مغل شہنشاہ محمد شاہ (1719-1728) کے دور میں 1724 میں گورنر ثابت خان نے تعمیر کروانا شروع کی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر مکمل ہونے میں چار سال لگے اور یہ 1728 میں مکمل ہوئی۔
Published: undefined
آر ٹی آئی ایکٹوسٹ کیشو دیو گوتم نے علی گڑھ کی ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں مسجد کو ہندو قلعہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد کے پاس موجود ستون پر 'اوم' کا نشان پایا جاتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل معلومات کے مطابق جامع مسجد کو آثار قدیمہ سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ریکارڈ میں جائیداد کے طور پر درج نہیں کیا گیا۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ مذکورہ قلعہ اے ایس آئی کی طرف سے نوٹیفائیڈ ہے اور اس کی باقیات بدھ اسٹوپ یا مندر سے مماثلت رکھتی ہیں۔
Published: undefined
درخواست گزار نے الزام لگایا کہ یہ مسجد دراصل ہندوؤں کا بالائی قلعہ تھی جس پر مبینہ طور پر ناجائز قبضہ کر کے اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ نیز یہ کہ مسجد کے اطراف موجود دکانوں اور مکانات کا کرایہ وصول کر کے سرکاری جائیداد کا ناجائز استعمال کیا جا رہا ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر قبضہ ختم کر کے اس مقام کو سرکاری کنٹرول میں لے اور اسے ہندو ’تیرتھ استھل‘ قرار دے۔
Published: undefined
غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے 12 دسمبر 2024 کو ایک عبوری حکم جاری کیا، جس کے تحت ملک بھر کی عدالتوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ مذہبی مقامات کی ملکیت سے متعلق نئے مقدمات درج نہ کریں اور نہ ہی سروے کا حکم دیں۔
عدالت نے کہا کہ زیر التواء مقدمات کی سماعت جاری رہ سکتی ہے لیکن نچلی عدالتوں کو کوئی عبوری یا حتمی حکم نہیں دینا چاہیے۔ یہ حکم عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران جاری کیا گیا تھا۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو چار ہفتوں کے اندر اپنا موقف واضح کرنے کی ہدایت دی ہے، اور اس معاملے کی اگلی سماعت 17 فروری 2025 کو مقرر کی گئی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined