قومی خبریں

الہ آباد ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ، ایف آئی آر اور پولیس ریکارڈ سے ذات پر مبنی شناخت حذف کرنے کا حکم

ہائی کورٹ نے یوپی حکومت کو ہدایت دی کہ پولیس کے تمام سرکاری دستاویزات سے ذات کا کالم ہٹایا جائے۔ اس میں ایف آئی آر، جرائم کی تفصیلات، گرفتاری اور سرنڈر میمو، پولیس رپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / الٰہ آباد ہائی کورٹ</p></div>

سپریم کورٹ / الٰہ آباد ہائی کورٹ

 

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ پولیس کے دستاویزات اور ایف آئی آر میں ملزم یا گواہ کی ذات کا ذکر فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔ عدالت نے اسے آئینی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہوئے حکومت اور محکمہ پولیس کو اس اہم تبدیلی کی ہدایت دی۔ عدالت نے ذات کو شناخت کی بنیاد قرار دینے کی روایت کو قانونی غلطی قرار دیا اور کہا کہ جدید دور میں شناخت کے لیے تکنیکی ذرائع دستیاب ہیں۔ ایسے میں ذات کو شناخت کے طور پر استعمال کرنا معاشرے کو تقسیم کرنے والا قدم ہے۔

Published: undefined

رپورٹس کے مطابق پروین چھتری نے عرضی داخل کر مقدمے کی پوری مجرمانہ کارروائی کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دراصل یہ معاملہ اٹاوہ کے جسونت نگر تھانہ حلقہ سے منسلک ہے۔ استغاثہ کے مطابق 29 اپریل 2023 کو پولیس ٹیم نے اسکارپیو گاڑی کو روک کر اس کی تلاشی لی، جس میں پروین چھتری سمیت 3 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے چھاپے ماری کے دوران گاڑیوں سے شراب کی سینکڑوں بوتلیں برآمد کیں اور ملزمان کی ذاتوں مالی، پہاڑی راجپوت، ٹھاکر اور برہمن کا ذکر ایف آئی آر اور ضبطی میمو میں کیا۔ عدالت نے اس پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ یہ نہ صرف ملزمان کی پروفائلنگ ہے بلکہ آئینی جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرنے والی روایت بھی ہے۔ جسٹس ونود دواکر نے کہا کہ ذات پر مبنی شناخت معاشرہ میں گہرے ذہنی اور سماجی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ آج آدھار کارڈ، فنگر پرنٹ اور موبائل کیمروں جیسے جدید آلات موجود ہیں تو پھر شناخت کے لیے ذات کا سہارا لینا غلط ہے۔

Published: undefined

ہائی کورٹ نے یوپی حکومت کو ہدایت دی کہ پولیس کے تمام سرکاری دستاویزات سے ذات کا کالم ہٹایا جائے۔ اس میں ایف آئی آر، جرائم کی تفصیلات، گرفتاری اور سرنڈر میمو، پولیس رپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ پولیس تھانوں میں لگے نوٹس بورڈ پر بھی ملزمان کے نام کے ساتھ ذات کا ذکر نہ ہو۔ ساتھ ہی تمام سائن بورڈ یا اعلانات جو کسی علاقہ یا جائیداد کو مخصوص ذات سے منسلک کرتے ہیں  فوری طور پر ہٹا دیے جائیں۔ عدالت نے زور دے کر کہا کہ مستقبل میں ایسے سائن بورڈ دوبارہ نہ لگیں اس کے لیے باضابطہ قوانین بنائے جائیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے مشورہ دیا کہ والد یا شوہر کے نام کے ساتھ اب پولیس فارموں میں ماں کا نام بھی شامل ہونا چاہیے، تاکہ صنفی مساوات کو بھی فروغ حاصل ہو۔

Published: undefined

واضح ہو کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنی ہدایت میں مرکزی حکومت کو بھی ذمہ داری سونپی ہے۔ عدالت نے کہا کہ موٹر وہیکلز ایکٹ میں ترمیم کر یہ یقینی بنایا جائے کہ گاڑیوں پر ذات پر مبنی نعرے یا شناخت نہ لگیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی ذات کی بنیاد پر تعریف کرنے والی یا نفرت پھیلانے والی پوسٹ پر کارروائی کے لیے آئی ٹی کے قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined