ملک میں جہاں روشنیوں کا تہوار دیپاولی بڑے پیمانے پر روشنی، مٹھاس اور خوشیوں کے ساتھ منایا جاتا ہے وہیں ہماچل پردیش کے ہمیر پور ضلع کا ایک گاوں سناٹے میں ڈوبا رہتا ہے۔ ضلع ہیڈ کواٹرسے تقریباً 25 کلومیٹر دور واقع سمو گاوں کو لوگ آج بھی’ملعون گاوں‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں دیپاولی کا محض ذکر ہی لوگوں کے چہروں پر خوف اور اداسی لے آتا ہے۔
Published: undefined
گاوں کے بزرگوں کے مطابق یہ روایت نہیں بلکہ صدیوں پرانی بد دعا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران گاوں کی ایک حاملہ خاتون دیپاولی پر اپنے والدین کے گھر جانے کے لیے نکلی تھی۔ اسی وقت اس کے شوہر جو فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے، جنگ کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ جب گاوں والے ان کی لاش لے کر آئے تو وہ خاتون یہ منظر دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکی اور ستی ہوگئی۔ جاتے جاتے اس نے گاوں کو بد دعا دی کہ ا ب اس گاوں میں دوبارہ کبھی دیوالی نہیں منائی جائے گی۔
Published: undefined
میڈیا رپورٹس کے مطابق سمو گاوں میں تب سے لے کر آج تک کسی نے دیپاولی نہیں منائی۔ گھروں میں نہ دیپ روشن کئے جاتے ہیں، نہ مٹھائیاں تیار کی جاتی ہیں اور نہ ہی کوئی جشن کا ماحول ہوتا ہے۔ گاوں کے رہائشی رگھو ویر سنگھ رنگدا بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو بھی دیپاولی منانے کی کوشش کرتا ہے ،اس کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ ضرور ہوجاتا ہے، کبھی کسی کی اچانک موت تو کبھی کوئی بڑا حادثہ۔ ہم نے کئی بار پوجا اور رسومات ادا کیں لیکن بد دعا سے آزادی نہیں ملی۔
Published: undefined
گاوں کی خاتون ودیا دیوی کی آواز میں بھی دیپاولی نہ منا پانے کا درد جھلکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دیپاولی ہمارے لیے خوشی کی طرح نہیں بلکہ ایک بوجھ کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ جب چاروں طرف دیپوں کی رونق ہوتی ہے تب ہمارے گھروں میں سناٹا پسرا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے بھی سمجھ گئے ہیں کہ اس دن دیئے نہیں روشن کئے جاتے۔
Published: undefined
بھورنج پنچایت کی پردھان پوجا دیوی بھی اس روایت کی تصدیق کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمو گاوں میں آج تک کسی نے دیپاولی نہیں منائی۔ لوگ آج بھی اس ستی کی بد دعا کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ سب کی یہی خواہش ہے کہ گاوں کو اس بد دعا سے نجات ملے تاکہ ایک دن یہاں بھی چراغوں کی روشنی پھیلے۔
Published: undefined
یہ صدیوں پرانا یہ خوف آج بھی سمو گاوں کی پہچان بنا ہوا ہے۔ جہاں ملک کا ہر کونا دیپوں سے جگمگا رہا ہے، وہیں ہماچل پردیش کا یہ چھوٹا سا گاوں تاریکی میں ڈوبا رہ کر خاموشی سے اس دن کا انتظار کر رہا ہے جب بد دعا کی بیڑیاں ٹوٹ جائیں اور پہلی بار دیپاولی کا دیا جل سکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined