ادبی

بھرپور ادبی زندگی جینے والے قاسم خورشید بھی چل بسے

قاسم خورشید (1957–2025) ایک ہمہ جہت اردو ادیب، شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور ٹیلی فلمساز تھے، جنہوں نے ادب، ڈرامہ اور تعلیم میں نمایاں خدمات انجام دیں

<div class="paragraphs"><p>قاسم خورشید / تصویر جمال عباس فہمی</p></div>

قاسم خورشید / تصویر جمال عباس فہمی

 

اردو دنیا ایک نہایت فعال اور ہمہ جہت شخصیت قاسم خورشید سے محروم ہو گئی۔ قاسم خورشید کا 30 ستمبر 2025 کو پٹنہ میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال ہو گیا۔ قاسم خورشید شاعر، افسانہ نگار، بچوں کے ادیب، ناقد، محقق، ڈرامہ نگار، اسٹیج آرٹسٹ، براڈ کاسٹر اور ٹیلی فلمساز تھے۔ وہ اپنے پسماندگان میں اہلیہ کے ساتھ ساتھ کئی شعری، افسانوی، بچوں کی کہانیوں اور ڈراموں کے مجموعے یادگار چھوڑ گئے۔ قاسم خورشید جیسی کثیر الجہات شخصیت اردو دنیا میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ جہاں تک ان کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو 1970 کے بعد سامنے آنے والے افسانہ نگاروں کے فورا بعد کے افسانہ نگاروں میں مشرف عالم ذوقی، احمد صغیر، صغیر رحمانی، ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض، تبسم فاطمہ کے ساتھ قاسم خورشید کا نام بھی ایک بڑا نام تصوّر کیا جاتا ہے۔

قاسم خورشید کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے سے پہلے ان کے خاندانی اور تعلیمی منظر نامہ پر نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ قاسم خورشید کی پیدائش، کاکو ضلع جہان آباد میں 2 جولائی 1957ء کو ہوئی تھی۔ چار برس کی عمر میں وہ اپنے والد سیّد غلام ربانی کے شفیق سائے سے محروم ہو گئے تھے۔ زمین داری کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ قاسم خورشید کا بچپن غربت اور کسمپرسی میں گزرا۔ ان کی والدہ ان کے دو چھوٹے بھائیوں کو لے کر میکے چلی گئی تھیں۔ دادا نے انہیں اپنے پاس روک لیا تھا۔

Published: undefined

مفلسی قاسم خورشید کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک پائی۔ انہوں نے چھوٹے موٹے کام کئے اور تعلیم کو جاری رکھا۔ دادا نے قدم قدم پر انہیں سہارا دیا اور حوصلہ افزائی کی۔ پٹنہ میں انہیں خالہ زاد مظفر الجاوید کی مدد حاصل رہی۔ انہوں نے کبھی ’پرل موٹرز‘ میں کام کیا، کبھی بس کے اسٹیل پرزوں کو پالش کر کے چمکایا۔ ان سب تجربات نے ان کی شخصیت کو صیقل کرنے کا کام کیا۔ جدوجہد ان کی زندگی کا دوسرا نام بن گئی۔

قاسم خورشید نے آئی اے اورینٹل کالج سے، بی اے آنرز اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اسی یونیورسٹی سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ انکی تحقیق کا موضوع 'پریم چند کے ناول ’’گئودان‘‘ کا ادبی احتساب''تھا۔یہ تعلیمی کامیابیاں انہوں نے اپنی قابلیت ، ذہانت اور عزم و حوصلے کی بنیاد پر حاصل کیں۔

اپنی کھنک دار آواز کا فائدہ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو، پٹنہ میں عارضی انائونسر کے طور پر خدمات انجام دیکر اٹھایا۔ انہوں نے محکمۂ راج بھاشا میں معاون مترجم، بہار ایجوکیشنل ٹیلی ویژن میں اسکرپٹ رائٹر، اور ڈپٹی پروڈکشن انچارج کے طور پراپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ایس سی ای آر ٹی ، بہار میں لینگویجز شعبوں کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اسی عہدے سے حسن خدمت کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔1985 میں جب بہار میں ایجوکیشنل ٹیلی ویژن شروع ہوا تو اسکی ابتدا میں قاسم خورشید کا بہت اہم رول تھا۔

Published: undefined

قاسم خورشید پریم چند، میکسم گورکی اور نیکولائی استراووسکی سے بہت متاثر تھے ۔وہ پریم چند کی حقیقت نگاری کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں حقیقت نگاری پر خاص توجہ دی ہے۔انکا اپنی کہانیوں کے سلسلے میں کہنا ہیکہ'' میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میری کہانیوں سے گزرتے ہوئے کوئی بھی حساس قاری اپنے احتساب کے دوران مجھے بھی ہمسفر بنانے کا شرف عطا کرےگا۔''

کہانی باگھ دادا انکی آپ بیتی ہے۔ اس کہانی میں انہوں نے اپنے خاندان کی مفلسی اور محرومی کو اس طرح بیان کیا ہیکہ قاری کو وہ اپنی داستان محسوس ہونے لگتی ہے۔انکی مقبول ترین کہانی 'باگھ دادا' کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

’اس رات سبھی سو چکے تھے۔میں نے دھیرے سے دروازہ کھولا۔ زوروں کی بھوک لگی تھی۔باگھ دادا کے مقبرے پر گیا۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ میں نے سرہانے ٹٹولنے کی کوشش کی۔ کچھ بھی نہیں ملا۔دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ دیر تک یہ سلسلہ قائم رہا۔ میرے دل نے اس وقت باگھ دادا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: آپ باگھ دادا ہیں۔ آپ نے آدم خور کو مار ڈالا تھا۔ بھوک ہمیں مار رہی ہے۔ کیا آپ اسے نہیں مار سکتے۔‘

Published: undefined

قاسم خورشید کا تخلیقی سفر دوران تعلیم شاعری سے ہی شروع ہوگیا تھا ۔ تب وہ " جعفر " یا " کیو ۔کے جعفر " کے نام سے شاعری کرتے تھے ۔ ابتدائی دور کی انکی شاعری میں بھی پختہ کاری نظر آتی ہے۔

پھولوں کی خامشی سے ظاہر یہ ہورہا ہے

کہ اس چمن کا مالی پھر خار بو رہا ہے۔

۔۔۔۔۔

آواز دے رہا ہے پورب سے پھر سویرا

اپنا شریر سورج دریا میں دھورہا ہے

۔۔۔۔

یہ تنکا زمیں پر سے اٹھ جائےگا

کہ چڑیا کہیں گھر بسانے کو ہے

۔۔۔

انہوں نے نہایت آسان مگر شستہ زبان میں شاعری کی۔

رشتوں کا بازار ملے گا۔

جو چاہو کردار ملےگا۔

سکھ میں تیرے ساتھ رہیں گے

اور دکھ میں بیزار ملے گا۔

۔۔

دل کی جب نادانی لکھنا

پیار، محبت، پانی لکھنا

بزم سے انکی واپس آکر

دریا، آنکھ، روانی لکھنا

جب آنکھوں میں آنسو آئے

میری ایک کہانی لکھنا

۔۔

Published: undefined

وقت کے ساتھ انکی شاعری میں عصری حسیت اور انسانی جذبات کی عکاسی نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔

مجھے پھولوں سے، بادل سے ہوا سے چوٹ لگتی ہے

عجب عالم ہے اس دل کا، وفا سے چوٹ لگتی ہے۔

۔۔

عشق میں اتنے تماشے ہیں کہ اے جان جگر

زندہ رہتے ہوئے مر کر نہیں دیکھا جاتا۔

۔۔

خوشبوئیں دور سے احساس کرا دیتی ہیں

ہر کسی پھول کو چھو کر نہیں دیکھا جاتا

۔۔

نیند سے ترک تعلق جو ہوا تیرے بعد

دن گزرتا ہے مگر رات کہاں ہوتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں خوش ہوا تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے

میری خوشی میں درد کا حصہ ضرور ہے

۔۔۔۔۔

بہت سی خوبیاں مر جاتی ہیں زمانے میں

کسی کا عیب ہی اکثر نظر میں رہتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔

Published: undefined

ڈرامہ نگاری اور اداکاری انکا پہلا عشق تھا۔ یہ عشق انہیں انڈین پیپلز تھئیٹر ایسو سی ایشن (آئی پی ٹی اے) تک لے گیا۔ بہار میں انہوں نے آئی پی ٹی اے کی ازسرے نو شروعات کی۔ غیر منقسم بہار کے جھریا، کتراس گڑھ اور دھنباد میں وہ مزدور طبقے کے اندر حقوق کے تئیں بیداری کی لہر دوڑانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ محنت کشوں کو بیدار کرنے کے لئے انہوں نے نکڑ ناٹک لکھے اور مزدوروں کے علاقوں میں نکڑ ناٹک پیش بھی کئے۔ ہدایت کاری بھی کی اور اداکاری بھی کی۔انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویزن کے لئے ڈرامے، دستاویزی فلمیں اور فیچرس لکھے بھی اور پیش بھی کئے۔انہوں نے منٹو، پریم چند اور راجندر سنگھ بیدی کے معروف افسانوں کو ڈرامائی شکل دیکر اسٹیج کیا۔ انکے متعدد افسانوں پر بنے ڈرامے اور ٹیلی فلمیں دوردرشن کے اسکرین کی زینت بنیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی انکی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بہار میں نصاب تعلیم کے لئے پہلے درجے سے بارہویں درجے کے طلبا و طالبات کے لئے نو زبانوں میں کتابیں تیار کرائیں۔ انکی کوششوں کے طفیل ہی نتیش حکومت نے مولانا ابولکلام آزاد کے یوم ولادت کو 'یوم تعلیم' کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔

انکا کمال یہ تھا کہ وہ بیک وقت شاعری، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری میں مصروف رہتے تھے۔ایک مصنف کی حیثیت سے قاسم خورشید کی پہلی پہچان صنف افسانہ کے حوالے سے ہوئی۔ پہلا افسانہ 1988ء میں رسالہ ’زبان و ادب‘ میں ’روک دو‘ عنوان سے شائع ہوا۔ 'پوسٹر'، 'کینوس پر چہرے' اور 'ریت پر ٹھہری ہوئی شام' ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ڈرامے کا ایک مجموعہ ’تماشہ‘، تنقیدی مضمون کا مجموعہ’متن اور مکالمہ‘ اور مقالۂ تحقیقی ’ادبی منظرنامے پر گئودان‘ ان کی دیگر مطبوعات ہیں۔ ’دل کی کتاب‘ انکا شعری مجموعہ ہے۔ بچوں سے متعلق کہانیوں کے مختصر مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ ’تھکن بولتی ہے‘ اور ’دل تو ہے بنجارہ‘ انکی ہندی شاعری کے مجموعے ہیں۔۔ ہندی میں چار افسانوی مجموعے 'تھار پر زندگی' ، 'کوئی ہاتھ'، 'گُنجا کی نیتی' اور 'کشن پور کی مسجد' منظر عام پر آئے۔ قاسم خورشید کے منتخب افسانوں کا انگریزی میں ’ویوز‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہ کارنامہ سید افروز اشرفی نے انجام دیا۔ قاسم خورشید نے کیف عظیم آبادی کے کلام کو دیوناگری میں ’سنولائی دھوپ‘ کے نام سے اور رضا نقوی واہی ، مرزا کھونچ اور کریک بتیاوی کے ظریفانہ کلام کا انتخاب ہندی میں ’ٹوٹے ہوئے چہرے‘ کے نام سے کیا۔

Published: undefined

ان کے افسانوں کے پہلے مجموعہ ’پوسٹر‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ قاسم خورشید کے افسانوں میں قدامت ، روایت اور جدّت کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے جو ان کو اپنے دیگر معاصرین سے ممتاز و منفرد بناتا ہے۔ ان کے افسانوں میں گاؤں دیہات، کھیت کھلیان کسان، مہاجن اور کسانوں کی غربت کا بیانیہ ملتا ہے۔

اپنے ایک افسانے میں وہ ایک غریب بوڑھے کسان کی حالت اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’دن بھر بیلوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومتا پھرتا۔ شام کے وقت گھر آ کر بیلوں کو کھونٹے سے باندھ دیتا اور پھر اپنے لئے روٹی پکانے کی کوشش کرتا تو ہاتھ جلنے لگتا۔ گرم پانی میں چاول ڈالتا تو آنکھوں سے کم دکھائی دینے کی وجہ سے پورا ہاتھ گرم پانی میں چلا جاتا اور وہ چیخ پڑتا لیکن اس کی چیخ سننے والا وہاں کوئی موجود نہیں ہوتا۔‘‘

قاسم خورشید نے ایک بھرپور اور زرخیز ادبی زندگی گزری جو کم و بیش نصف صدی پر محیط ہے۔ لیکن قدرت نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے ایک بچی کو گود لے لیا تھا لیکن اس بچی کی زندگی نے بھی وفا نہیں کی۔ اور قاسم خورشید کی زندگی کا آنگن ایک بار پھر سونا ہو گیا۔ بچی کی ناگہانی موت کا غم وہ اپنے ساتھ ہی لیکر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ایک بیٹی سے ہی گھر روشن تھا میرے خواب کا

چھن گئیں خوشیاں مری اور آشیاں رہنے دیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined