ادبی

ہندی کو درپیش سب سے بڑا بحران جھوٹ ہے: اشوک باجپئی

ممتاز ادیب اور شاعر اشوک باجپئی نے ہفتہ کو آچاریہ ہزاری پرساد دویدی کی 117ویں یوم پیدائش پر ان کے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کام آج بھی متعلقہ ہیں اور آج اور بھی زیادہ اہم ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر قومی آواز / وپن</p></div>

تصویر قومی آواز / وپن

 
VIPIN

نئی دہلی : ممتاز ادیب اور شاعر اشوک باجپئی نے ہفتہ کو آچاریہ ہزاری پرساد دویدی کی 117ویں یوم پیدائش پر ان کے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کام آج بھی متعلقہ ہیں اور آج اور بھی زیادہ اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندی کو درپیش سب سے بڑا بحران جھوٹ کا ہے۔ ہندی میں جتنی بے حیائی ہے اتنی کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قارئین کو سچ اور جھوٹ سے آگاہ کریں۔ انہوں نے ادب کو ’ویشنو جن‘ برادری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حساسیت اور مشترکہ انسانیت ادب سے ہی ممکن ہے۔ باجپئی ہفتہ کو ساہتیہ اکادمی آڈیٹوریم میں آچاریہ ہزاری پرساد دویدی کے 117ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ سیمینار میں کلیدی مقرر کے طور پر بول رہے تھے۔

Published: undefined

ادیب ڈاکٹر ویناتھ ترپاٹھی کی صدارت میں منعقدہ اس سمینار میں معروف گاندھیائی ادیب پروفیسر سدھیر چندر نے بھی اپنی بات رکھی۔ پروگرام کا اہتمام آچاریہ ہزاری پرساد دویدی میموریل ٹرسٹ نے کیا تھا۔ اس موقع پر ٹرسٹ کی طرف سے شائع کردہ یادگار پونرنوا کا افتتاح کیا گیا۔ پروگرام سے پہلے آچاریہ ہزاری پرساد دویدی کی تصویر پر پھول چڑھا کر اظہار تشکر کیا گیا۔ اس موقع پر ٹرسٹ کی صدر ڈاکٹر اپرنا دویدی، راج کمل پرکاشن کے سربراہ اشوک ماہری، نائب صدر نوپور پانڈے اور ادبی دنیا سے وابستہ لوگ موجود تھے۔

Published: undefined

باجپائی نے کہا کہ آج کا لٹریچر جھوٹ کے خلاف ہونا چاہیے۔ لکھنے والے سچ بولتے ہیں لیکن یہ ان کا ذاتی سچ ہے۔ پروفیسر سدھیر چندر نے کہا کہ آچاریہ ہزاری پرساد دویدی جیسا عالم نہ صرف ہندی میں بلکہ کسی اور زبان میں بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ آچاریہ جی کہتے ہیں کہ جس ادب کا مقصد انسانیت نہیں، وہ فنتاسی عیش ہے۔ آچاریہ جی کی 1948 کی تحریر آج مزید وحشت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔

Published: undefined

ڈاکٹر ویناتھ ترپاٹھی نے دویدی جی کی رومانوی تخلیق پر بحث کی اور ان کے کام چندرلیکھ کے حصے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب علم آتا ہے تو یہ راز نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر اگر یہ ایٹم بم بن جاتا ہے تو پھر یہ راز نہیں رہے گا۔ آج کے اے آئی (مصنوعی ذہانت) پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ صحافیوں، ادیبوں، اساتذہ کو کھا جائے گا۔ اس سے لاکھوں لوگ بے کار ہو جائیں گے لیکن یہ سب آج کی سائنس کے لیے ایک نقطہ ہوگا۔ اس لیے شاعری کو زندہ رہنا چاہیے، کیونکہ اس میں احساسات ہوتے ہیں۔ آچاریہ جی کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کرتے ہوئے سنیل نے ان کے کھلکھلا کر ہنستے کی تعریف کی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined