جگدیپ چھوکڑ، تصویر Getty Images
الیکشن کمیشن ایک ماہ سے بہار کی ووٹر لسٹ کو ’درست‘ کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔ اسے خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) نام دیا گیا ہے۔ یہ کوشش اب اپنی پہلی بڑی منزل پر پہنچ گئی ہے۔ ووٹر لسٹ کا نیا مسودہ سامنے آ چکا ہے اور جیسا ڈر تھا، ویسا ہی ہوتا دکھائی پڑ رہا ہے۔ جنوری کی لسٹ کے مقابلے نئی لسٹ میں 65 لاکھ نام ندارد ہیں۔ کمیشن ہمیں بتا رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو دنیا سے گزر چکے ہیں، یا پھر ہمیشہ کے لیے بہار سے ہجرت کر چکے ہیں۔ ان میں وہ نام بھی ہیں جو ’ڈپلی کیٹ‘ تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے ایسے لوگوں کی فہرست نہیں دی۔ ساتھ ہی جو ووٹر لسٹ کا مسودہ دیا ہے، اسے کسی کمپیوٹر یا مشین کے ذریعہ نہیں پڑھا جا سکتا۔ اس لیے غلطیاں یا خرافات پکڑی جا سکیں، اس کے امکان نہیں ہیں۔
اپوزیشن پارٹیاں اس معاملے پر مستعد ہو گئی ہیں۔ کچھ ہی وقت قبل اسی طرح کی کرامات تب دکھائی دی تھی جب الیکشن کمیشن نے مہاراشٹر میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی کی تھی اور 5 ماہ میں ہی (مئی 2024 میں ہوئے لوک سبھا انتخاب سے اسی سال نومبر میں ہوئے اسمبلی انتخاب تک) 40 لاکھ نئے ووٹر جڑ گئے تھے۔ ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم یعنی اے ڈی آر نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کر گزارش کی ہے کہ ہٹائے گئے ناموں کی بوتھ سطح کی فہرست دی جائے، ساتھ ہی اس میں ہٹائے جانے کی وجہ بھی موجود ہے۔ ہرجندر نے اے ڈی آر کے بانی جگدیپ سنگھ چھوکڑ سے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ آگے کیا ہو سکتا ہے۔ اس خصوصی انٹرویو کے اہم اقتباسات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
مہاراشٹر اور کرناٹک وغیرہ میں ووٹرس کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ گئی، بہار میں بہت تیزی سے گھٹ گئی، یہ کیا ہو رہا ہے؟
جو یہ کر رہے ہیں، وہی جانیں۔ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ یہ جو ہو رہا ہے، اس کے ارادے نیک نہیں ہیں۔
اس سب کے پیچھے کوئی سوچ بھی ہے کیا؟
مجھے نہیں پتہ کیا سوچ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں جو انتخابی عمل ہے، اس کی پاکیزگی ضرور ختم ہو رہی ہے۔
فی الحال سب سے بڑا سوال ان 65 لاکھ ووٹروں کا ہے جن کے نام بہار کی ووٹر لسٹ سے ہٹائے گئے ہیں۔ آپ نے ان کی پوری لسٹ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔ ان 65 لاکھ ووٹرس کی پہیلی کیا ہے؟ اگر ان کی لسٹ جاری ہو جاتی ہے تو کیا واقعی میں کوئی فائدہ ہوگا؟
فائدہ ہوگا، اسی لیے تو ہم نے لسٹ مانگی ہے۔ کیا فائدہ ہوگا، وہ تب پتہ لگے گا جب جانکاری سامنے آئے گی۔ الیکشن کمیشن جانکاری تو دیتا ہے، لیکن وہ پوری جانکاری نہیں دیتا ہے۔ جب کم جانکاری وہتی ہے تو لگتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، ہمیں مزید کچھ جانکاری چاہیے۔ یہی کھیل چلتا رہتا ہے۔ لوگوں کو کم از کم یہ پتہ تو ہونا چاہیے کہ ان کا نام کیوں کٹا ہے؟ جو انھوں نے ابھی تک لسٹ جاری کی ہے 65 لاکھ کی، اس میں یہ نہیں لکھا کہ کس کا نام کیوں کٹا۔ بس یہ لکھا ہے کہ ان کے نام کٹ گئے ہیں۔
ہم سے سپریم کورٹ نے کہا کہ آپ 15 لوگ ایسے لائیے جن کے نام اس وجہ سے کٹے ہوں کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے، جبکہ وہ زندہ ہیں۔ ابھی جو لسٹ ہے اس سے نام کٹنے کی وجہ پتہ نہیں لگتی۔
نام کاٹنا ایک قانونی عمل ہے۔ اس میں نوٹس دینا پڑتا ہے۔ آدمی کو پیش ہو کر اپنی بات کہنے کا موقع دینا پڑتا ہے۔ وہ تو انھوں نے کیا نہیں، بس نام کاٹ دیے۔ ہم ان سے آگے پوچھیں گے کہ آپ نے کس کس کو نوٹس دیا؟ کیا نوٹس دیا؟ اور جو مر گئے ہیں، ان کو لے کر کیا طریقۂ کار اختیار کیا گیا؟ جانکاریاں ملیں تو پھر کئی باتیں سامنے آئیں گی۔
پہلے یہ بتایا جاتا تھا کہ اس مرتبہ فرسٹ ٹائم ووٹر کتنے ہیں۔ اس بار اس کا کوئی ہندسہ نہیں دیا جا رہا۔ نئے ووٹرس کہاں غائب ہو گئے؟
اب مجھے کیا پتہ کہاں غائب ہو گئے۔ یہ تو جنھوں نے غائب کیا، وہی بتائیں گے۔ عام طور پر ہر سال ووٹر لسٹ میں لوگ بڑھتے ہیں، کیونکہ نئے لوگ 18 سال کے ہو جاتے ہیں۔ ملک میں زندہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شرح پیدائش یہاں شرح اموات سے زیادہ ہے۔ اسی لیے ہر سال نئے ووٹر بنائے جاتے ہیں۔ پہلے ان کا جشن بھی منایا جاتا تھا۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ مرنے والوں کو لے کر جشن منایا جا رہا ہے۔ کسی سے میں نے یہ بھی سنا کہ پہلے ووٹر حکومت کا انتخاب کرتے تھے، اب حکومت ووٹروں کا انتخاب کر رہی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو حکومت منتخب کرے گی کہ ووٹ کون کر سکتا ہے؟ سپریم کورٹ طے کرے گی کہ سچا ہندوستانی کون ہے؟ اور ہم صرف دیکھتے رہیں گے۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار سے تو لگتا ہے کہ جیسے بہار میں آبادی کم ہو رہی ہے؟
6 مہینے میں 25-22 لاکھ لوگ مر گئے۔ 37 لاکھ وہاں سے باہر چلے گئے۔ اس سے تو کچھ ہی وقت میں بہار سنسان ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن بی ایل اے یعنی بوتھ لیول ایجنٹ کے نام پر اپنی بات کو درست ٹھہرا رہا ہے۔ کیا وہ ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہا ہے؟
بوتھ لیول ایجنٹ کا تو اس کام میں ہونا ہی قانونی طور پر غلط ہے۔ پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ ووٹر لسٹ میں سیاسی پارٹیوں نے اپنے ووٹر بھر دیے۔ اب الیکشن کمیشن ان کو کہہ رہا ہے کہ اپنے ووٹر بھرو۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ کام سونپنا الیکشن کمیشن کا اپنے کام سے ہاتھ جھاڑنا ہے۔ یہ جو سارا کام الیکشن کمیشن پارٹیوں کو دے رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کا شہریوں سے اب کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے۔ میرا الیکشن کمیشن سے سیدھا رشتہ ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو اس نے اب میرا ٹھیکیدار کیوں بنا دیا؟ ہندوستانی آئین میں تو سیاسی پارٹی لفظ ہی نہیں تھا۔ یہ لفظ تو تب آیا جب دَل بدل مخالف قانون بنا۔ ہر بار یہ کہا جاتا تھا کہ سیاسی پارٹیوں نے ووٹر لسٹ میں فرضی ووٹر جوڑ دیے۔ اب یہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ تم ووٹر جوڑو۔
الیکشن کمیشن ایسا ڈاٹا کیوں نہیں دیتا جسے کمپیوٹر کے ذریعہ پڑھا جا سکے (مشین ریڈیبل ڈاٹا)؟ اس میں کیا دقت ہے؟
ان کو اسے دینے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کہا کرتے تھے کہ ہمارے تو 3 اصول ہیں– ڈسکلوزر، ڈسکلوزر، ڈسکلوزر۔ ایسا ہے تو آپ دے دیجیے۔
اب تو یہ جو ووٹر لسٹ کا مسودہ دے رہے ہیں، اس کو آپ اسکین بھی نہیں کر سکتے۔ آپ وہاں کاغذ کو رکھیے اسکین پر تو خالی آتا ہے۔ کسی طریقے سے انھوں نے اس کی اسکیننگ نہ ہو سکے، اس کا بھی انتظام اس میں کر دیا گیا ہے۔ جانکاری دینے میں پتہ نہیں کیوں ان کا دَم نکلتا ہے۔
اس پر کہتے ہیں کہ ہم شفافیت پسند ہیں۔ ان کی یہ شفافیت تو سبھی کو نظر آ رہی ہے۔ اسی لیے ان پر شبہ ہوتا ہے۔ ہر چیز کا انکشاف کر کے آپ بحث کرتے رہیے، سب لوگوں کو بتاتے رہیے، پھر کوئی شبہ نہیں ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined