انٹرویو

لوک سبھا انتخاب 2024: ’زمین پر حالات بدل رہے ہیں...‘، جگنیش میوانی سے امئے تروڈکر کا انٹرویو

جگنیش میوانی کے مطابق لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ریزرویشن کی حد بڑھانے کا واحد طریقہ ذات پر مبنی مردم شماری ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس ڈاٹا سے وہ قومی وسائل میں اپنی حصہ داری جان سکیں گے۔

جگنیش میوانی، تصویر آئی اے این ایس
جگنیش میوانی، تصویر آئی اے این ایس 

گجرات کے وڈگام اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی اور تیزی سے ابھرتے ہوئے نوجوان دلت لیڈر جگنیش میوانی نے اس انٹرویو میں ملک کے مزاج، گجرات میں کانگریس کے امکانات اور پارٹی کے انتخابی منشور پر کھل کر گفتگو کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم اقتباسات...

Published: undefined

بی جے پی کا نعرہ تھا ’اب کی بار، 400 پار‘، لیکن اب پارٹی اس پر خاموش ہے۔ آپ اس تعلق سے کیا کہیں گے؟

جنوبی ہند سے انھیں زمینی حقائق کی جانکاری ملی ہوگی، انھیں اپنے کارکنان اور آر ایس ایس یا آئی بی سے بھی صورت حال کا اندازہ ہوا ہوگا۔ چیزیں ان کے حق میں نہیں جا رہی ہیں۔ پہلے مرحلہ میں ان کی گرفت چھوٹ چکی ہے۔ گجرات میں 26 میں سے 26 اور قومی سطح پر 400 سیٹیں حاصل کرنے کا تکبر ٹوٹ چکا ہے۔

آپ کو لگتا ہے کہ 400 سے زیادہ سیٹیں ملنے پر آئین بدلنے والی بات لوگوں تک پہنچ چکی ہے؟

اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعہ آئین ساز اسمبلی میں آئین پیش کیے جانے کے تین روز بعد آر ایس ایس کے ترجمان رسالہ ’آرگنائزر‘ نے لکھا تھا کہ ہمیں امبیڈکر کا آئین نہیں، منو اسمرتی چاہیے۔ اب اننت ہیگڑے جیسے کئی لیڈران نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئین بدلنے آئے ہیں۔ آر ایس ایس میں بھی یہ بات چیت چل رہی ہے۔ واقعی ڈرنے کی بات ہے کہ وہ ہمارے سماجی تانے بانے کو بگاڑنا چاہتے ہیں، وہ آئین سے کھلواڑ کریں گے۔ یہ خطرناک معاملہ ہے۔ سماج کا بڑا حصہ اس تعلق سے فکرمند ہے۔

گزشتہ دو انتخابات میں بی جے پی نے گجرات میں کلین سوئپ کیا تھا۔ اس مرتبہ کیسے حالات ہیں؟

اس مرتبہ ایسا نہیں ہونے والا۔ 110 فیصد ایسا نہیں ہوگا۔ ہمارا عآپ کے ساتھ اتحاد ہے۔ ہم پاٹن، بناسکانٹھا، آنند، ولساڈ، جوناگڑھ، راجکوٹ میں اچھی طرح سے لڑ رہے ہیں۔

ایسا کیوں لگ رہا کہ کانگریس گجرات میں بی جے پی کو روک سکتی ہے؟

بی جے پی کے تکبر کے سبب۔

لیکن ڈیڑھ سال قبل اسمبلی انتخاب میں کانگریس بری طرح ہار گئی تھی؟

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کانگریس اسمبلی انتخاب میں صرف 17 سیٹیں ہی جیت سکی تھی۔ 2017 میں 77 کے بعد 17 سیٹوں پر محدود ہونا بڑی شکست ہے۔ لیکن اب ہوا بدل چکی ہے۔

گزشتہ 10 سالوں میں نوجوان و خواتین بی جے پی کی کامیابیوں کی ریڑھ رہے ہیں...!

آپ خاتون پہلوانوں کا معاملہ دیکھیں۔ انھیں برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف ایف آئی آر کے مطالبہ پر 100 دنوں سے زیادہ دہلی کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ کرنا پڑا۔ منی پور میں جو کچھ ہوا وہ سبھی کے سامنے ہے۔ یہاں گجرات میں انھوں نے بلقیس بانو کے زانیوں کو رِہا کر دیا گیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب ٹھیک ہو رہا ہے۔

خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان بھی بی جے پی کی حمایت میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں؟

حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مایوس ہیں۔ ہندوستان کے کسی بھی حصے میں 60 سے 65 فیصد لوگ 25 سے 40 سال سے کم عمر کے ہیں۔ سبھی کو روزگار چاہیے۔ یہ ملازمتیں ہیں کہاں؟ کوئی ملازمت نہیں اور مودی نے تو اب اس بارے میں بولنا بھی بند کر دیا ہے۔ انھیں روزگار کی فکر نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سالانہ دو کروڑ ملازمتیں دیں گے۔ اس طرح تو اب تک انھیں 20 کروڑ ملازمتیں پیدا کر دینی چاہیے تھیں۔ سچ سبھی کے سامنے ہے۔

مودی سمیت بی جے پی لیڈران کانگریس کے انتخابی منشور پر حملہ آور ہیں؟

انھیں حملہ کرنے دیجیے۔ یہی ان کا کام ہے۔ ہم عوام کے حق میں اور ان کی فلاح کو پیش نظر رکھ کر تیار انتخابی منشور لے کر آئے ہیں۔ یہ ہندوستان کی ترقی کا بلو پرنٹ ہے۔

کانگریس کے ذریعہ ذات پر مبنی مردم شماری کا وعدہ کیا جا رہا ہے، اس پر لوگوں کا کیسا رد عمل ہے؟

لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ریزرویشن کی حد بڑھانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس ڈاٹا سے انھیں قومی وسائل میں اپنی حصہ داری جاننے میں مدد ملے گی۔

’مودی نہیں تو کون؟‘ اس سوال پر آپ کیا کہیں گے؟

میرا جواب ہوگا ہندوستان کے لوگ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے لکھا ہے کہ سیاست میں ہیرو کی پوجا مناسب نہیں۔ ہمارے پاس انڈیا بلاک ہے، ہم کوئی بھی فیصلہ اجتماعی طور پر لیں گے۔

مضبوط قیادت کے سوال پر آپ کی رائے؟

دیکھیے، اگر میں وزیر اعظم بن جاتا ہوں اور اگر میں بے زمین لوگوں کو زمین نہیں تقسیم کر رہا، اگر مجھے ایم ایس ایم ای کو دوبارہ زندہ کرنے کی پروا نہیں ہے، اگر مجھے منریگا کی فکر نہیں ہے، اگر میں خالی سرکاری عہدوں کو نہیں بھرتا، تو پھر ایک مضبوط قیادت کا کیا مطلب؟ لوگ ایسی حکومت چاہتے ہیں تو ان کے لیے کام کریں، نہ کہ چند دوستوں کے لیے۔

(جگنیش میوانی کا یہ انٹرویو امئے تروڈکر نے لیا ہے جو انگریزی پورٹل ’فرنٹ لائن‘ پر شائع ہوا، اور اس کا ترجمہ یہاں پیش کیا گیا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined