انٹرویو

’پولس والوں نے میرا سر پیروں سے دبا لیا اور ایس او نے منھ میں پیشاب کر دیا‘

معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پریس کاؤنسل آف انڈیا کی پانچ رکنی ٹیم ہفتہ کو متاثرہ صحافی کی تکلیف سننے آ رہی ہے اور اس کی جانکاری مقامی صحافیوں کو دے دی گئی ہے۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف 

26 سال کا امت شاملی سے مظفر نگر روڈ پر بنت کے پاس والے ایک گاؤں جلال پور میں رہتا ہے۔ امت کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے اور اس کی ماں اکثر بیمار رہتی ہے۔ بدھ کی رات جب مال گاڑی کے پٹری سے اتر جانے کے بعد رپورٹنگ کرنے پہنچے امت کو جب جی آر پی نے پیٹ کر حوالات میں بند کر دیا تو اس نے صبح تک یہ بات اپنے گھر میں نہیں بتائی تھی۔ اگلے دن جب وہاٹس ایپ پر یہ ویڈیو دیکھا جانے لگا تو امت کے گھر والے ڈر گئے اور انھوں نے امت سے پوچھا کہ رات میں کیا کچھ ہوا تھا۔ امت ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’ماں بیمار ہے اور والد کو میں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، ان کا فون آیا تھا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا ہے، میں دیر سے گھر آؤں گا۔‘‘

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

امت آج بھی گھبرایا ہوا ہے۔ پہلے وہ ٹیوشن پڑھا کر اپنا پیٹ پالتا تھا، اب صحافت کے اپنے کیریر پر بھی سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ شاملی تحصیل میں اپنے وکیل پرتاپ راٹھوڑ کے چیمبر میں وہ اب کاغذی کارروائی کی تیاری میں مصروف ہے۔ اسے بری طرح پیٹنے والے جی آر پی کے تھانہ انچارج راکیش کمار کے خلاف سنگین دفعات میں رپورٹ درج ہو چکی ہے۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

امت کے چہرے سے اس کے اندر پیدا تناؤ کا احساس بخوبی ہو جاتا ہے۔ دو دن پہلے پولس کے ذریعہ کی گئی پٹائی کے سبب اب تک اسے درد کی دوائیں لینی پڑ رہی ہیں۔ امت کا کہنا ہے کہ ’’میں بس اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا۔ مال گاڑی کے تین ڈبے پٹری سے اتر گئے تھے تبھی وہاں جی آر پی کے ایس او راکیش کمار آ گئے اور انھوں نے میرے ہاتھ میں تیزی سے ہاتھ مارا جس سے میرا فون دور جا گرا۔ میں نے کہا یہ آپ نے کیوں کیا! تو انھوں نے مجھے گالی دینی شروع کر دی اور ان کے ساتھ والے پولس اہلکار مجھے پیٹنے لگے۔ وہ میرے ذریعہ ایک مہینہ پہلے غیر قانونی وینڈروں کے خلاف چلائی گئی خبر سے ناراض تھے۔ مجھے لات گھونسوں سے بری طرح پیٹا گیا اور اس کے بعد تھانہ میں لا کر بند کر دیا۔ تھانہ میں لانے سے پہلے انھوں نے ایک بار پھر میری پٹائی کی اور میرا سر اپنے پیروں میں دبا کر لگاتار کمر پر کہنی ماری۔ بعد میں ایس او نے میرے منھ میں پیشاب کر دیا۔ اس کے بعد مجھے تھانہ لے جا کر ایک بار پھر پیٹا گیا۔‘‘

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

امت گزشتہ چار مہینے سے صحافت کر رہے ہیں۔ ساتھی صحافیوں کی مانیں تو وہ جنونی ہیں اور رِسک اٹھاتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد صحافیوں میں بہت غصہ ہے۔ وہ جمعرات کو دھرنے پر بیٹھ گئے تھے اور اب امت کی پٹائی کرنے والے پولس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ حالانکہ امت کو اب بھی سکون نہیں ملا ہے۔ وہ بھاگ دوڑ میں پوری طاقت جھونک رہے ہیں۔ امت کہتے ہیں ’’بدن میں کافی درد ہے، دوائی کھا رہا ہوں مگر اندر کی آگ ختم نہیں ہو رہی ہے۔ جی آر پی پولس صبح چار بجے مجھے اسپتال لے کر آئی۔ پوری رات مجھے تھانہ میں رکھا اور مجھ پر ریلوے لائن کے پاس گھومنے پر مقدمہ درج بھی کر دیا۔ جب تک میرے ساتھ ناانصافی کرنے والے سبھی پولس اہلکار جیل نہیں چلے جاتے، اس وقت تک میں خاموش نہیں بیٹھوں گا۔‘‘

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

شاملی مغربی اتر پردیش کا وہ ضلع ہے جو ہمیشہ سرخیوں میں رہتا ہے۔ پہلے یہ مظفر نگر کا حصہ تھا۔ یہاں دبنگ ذات کے لوگوں کی بالادستی ہے۔ اکثر یہاں صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں۔ کئی اخباروں کے دفتر پر بھی یہاں حملے ہو چکے ہیں۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

بدھ کو شاملی میں ہوئی امت کی پٹائی کے بعد اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ پریس کی آزادی کو لے کر بھی سوال لگاتار اٹھ رہے ہیں۔ پہلے ہی کچھ صحافیوں کی گرفتاری سے صحافی طبقہ ناراض ہے۔ اب امت کی پٹائی نے معاملے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ امت شرما کی تحریر پر ایس او راکیش کمار، سپاہی سنجے کمار، رنکو اور سنیل کے خلاف رپورٹ درج کی گئی ہے۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پریس کاؤنسل آف انڈیا کی پانچ رکنی ٹیم ہفتہ کو متاثرہ صحافی کی تکلیف سننے پہنچی اور پورے واقعہ کی تفصیلی جانکاری حاصل کی۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

شاملی میں صحافیوں پر حملے کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے دو بڑے اخبارات کے دفتروں پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔ مقامی صحافیوں کا الزام ہے کہ وہ دونوں حملے بھی پولس کی شہ پر کیے گئے تھے۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

ایڈووکیٹ پرتاپ راٹھوڑ کے مطابق گزشتہ کچھ وقت سے پولس کے رویہ میں تبدیلی آئی ہے۔ کئی صحافیوں کے خلاف مقدمے درج ہوئے ہیں۔ امت کی پٹائی صرف اسے بے عزت کرنے کے لیے نہیں کی گئی بلکہ سبھی صحافیوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

ایک صحافی کی ایسی پٹائی کے بعد پورا صحافی طبقہ متحد ہو گیا ہے۔ پہلے انتظامیہ ملزمین کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر رہی تھی، لیکن بعد میں صحافیوں کے اتحاد کو دیکھ کر اسے بیک فٹ پر جانا پڑا اور مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھانی پڑی۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

مظفر نگر کے ’پترکار مہا سبھا‘ کے صدر مشرف صدیقی نے بتایا کہ ’’پولس چاہتی ہے کہ صحافی صرف ان کے انکاؤنٹر کی تعریف کریں اور انھیں بڑھا چڑھا کر مسیحا ثابت کریں۔ جو ان سے سوال پوچھتا ہے وہ ان کی آنکھ میں چبھ رہا ہے۔ امت کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ صحافیوں کے تئیں پولس کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمے لکھے جانے کی بھی شکایتیں ملی ہیں۔ شاملی کے واقعہ نے اب یہ طے کر دیا ہے کہ اپنے وجود کے لیے اب ہم لڑیں گے۔‘‘

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 15 Jun 2019, 4:10 PM IST