
Getty Images
بنگلہ دیش میں حالات اس وقت بگڑ گئے جب ’انقلاب منچ‘ کے ترجمان اور سرکردہ تحریک کار شریف عثمان ہادی کی موت کی خبر سامنے آئی۔ سنگاپور میں علاج کے دوران جمعرات کو ہادی کے انتقال کے فوراً بعد راجدھانی ڈھاکہ سمیت کئی بڑے شہروں میں احتجاج شروع ہوا، جو دیکھتے ہی دیکھتے تشدد میں بدل گیا۔
ڈھاکہ کے کارواں بازار علاقے میں مشتعل مظاہرین نے ملک کے بڑے بنگلہ روزنامے پرتھم آلو اور انگریزی اخبار دی ڈیلی اسٹار کے دفاتر پر حملہ کر دیا۔ عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی گئی، فرنیچر اور دستاویزات باہر نکال کر نذرِ آتش کر دی گئیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق حملے کے وقت متعدد صحافی اور ملازمین دفاتر کے اندر پھنس گئے تھے، جنہیں بعد میں سکیورٹی اہلکاروں نے بحفاظت نکالا۔ دی ڈیلی اسٹار نے اپنے عملے کی سلامتی سے متعلق شدید تشویش کا اظہار کیا۔
Published: undefined
تشدد کا دائرہ صرف راجدھانی تک محدود نہ رہا۔ راج شاہی میں مظاہرین نے عوامی لیگ کے ایک دفتر کو آگ لگا دی۔ اسی طرح چٹ گاؤں میں بڑی تعداد میں لوگ ہندوستانی ہائی کمیشن کے دفتر کے باہر جمع ہو گئے، جہاں پتھراؤ کیا گیا اور ہند مخالف و عوامی لیگ مخالف نعرے لگائے گئے۔ ان واقعات کے بعد سکیورٹی اداروں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا۔
ادھر، ہادی کی موت کی خبر پھیلتے ہی ڈھاکہ کے شاہ باغ چوراہے پر ہزاروں افراد جمع ہو گئے۔ مظاہرین نے سڑکیں بند کر دیں اور حکومت پر ہادی کی حفاظت میں ناکامی کا الزام لگایا۔ ابتدا میں پُرامن نظر آنے والا احتجاج جلد ہی پرتشدد رخ اختیار کر گیا، جس کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے۔
Published: undefined
واضح رہے کہ 12 دسمبر کو ڈھاکا کے بجوئے نگر علاقے میں انتخابی مہم کے دوران نامعلوم حملہ آوروں نے شریف عثمان ہادی کو سر میں گولی مار دی تھی۔ شدید زخمی حالت میں انہیں پہلے ڈھاکہ کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا، بعد ازاں 15 دسمبر کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے سنگاپور منتقل کیا گیا، جہاں علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔ بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ اور سنگاپور حکام نے ان کی موت کی تصدیق کی ہے۔
شریف عثمان ہادی جولائی 2024 کی بغاوت کے دوران قومی سطح پر ابھر کر سامنے آئے تھے، جب شیخ حسینہ حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ وہ عوامی لیگ پر آئینی پابندی کے مطالبے کی مہم کا نمایاں چہرہ سمجھے جاتے تھے اور ہند نواز سیاست کے سخت ناقد مانے جاتے تھے۔
Published: undefined
صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور قوم سے خطاب میں امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے جمعہ کے روز قومی سوگ کا اعلان کرتے ہوئے ہادی کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ تشدد کے بعد ڈھاکہ، چٹ گاؤں اور راج شاہی میں سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے، تاہم ملک میں کشیدگی تاحال برقرار ہے۔
Published: undefined