واشنگٹن میں اس وقت صدر ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ کی جنگ زدہ ریاست شام سے امریکی فوجی انخلاء کے اپنے فیصلے پر ہر طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کی مشکل یہ ہے کہ یہ تنقید خود ان کی اپنی ریپبلکن پارٹی کے بہت سے سرکردہ رہنماؤں کی طرف سے بھی کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
ایسے میں خوشی کا اظہار صرف روس کی طرف سے کیا جا رہا ہے، جو شامی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی بھرپور عسکری اور سیاسی مدد کی وجہ سے ایک بڑا فریق بن چکا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
ریپبلکن پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے وہاں تعینات امریکی فوجی دستے واپس بلا لینے کے فیصلے پر زبردست تنقید کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ صدارتی فیصلہ نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ ایک ایسا غلط قدم بھی ہے، جس کے امریکی سلامتی کے لیے ’تباہ کن‘ نتائج نکلیں گے۔
Published: undefined
ٹرمپ کے اس فیصلے سے بھرپور اختلاف کرنے والوں میں امریکی کانگریس کے بیسیوں ارکان میں خود ریپبلکن سینیٹرز اور ایوان نمائندگان کے اراکین بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ یکدم اعلان کل بدھ انیس دسمبر کو کیا تھا کہ شام میں چند برس پہلے اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کرنے والی دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو حتمی عسکری شکست دے دی گئی ہے۔ اس لیے واشنگٹن نے شام سے اپنے فوجی دستوں کی واپسی کا عمل شروع بھی کر دیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ فوجی انخلاء ممکنہ طور پر 60 سے لے کر 100 دنوں تک مکمل ہو جائے گا۔
Published: undefined
Published: undefined
اس بارے میں صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ہم نے شام میں داعش کو شکست دے دی ہے۔ یہی وہ واحد وجہ تھی کہ ٹرمپ صدارتی دور میں امریکی دستے وہاں بھیجے گئے تھے۔‘‘ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی بارے میں ٹوئٹر پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں مزید کہا، ’’ہم آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کے خلاف جیت گئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے فوجی، جو ہیرو ہیں، واپس وطن لوٹ آئیں۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
ٹرمپ کے اس موقف کے برعکس ریاست جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے سرکردہ ریپبلکن سینیٹر لِنڈسے گراہیم نے، جو دراصل اپنے اس بیان سے پہلے تک ڈونلڈ ٹرمپ کا دفاع کرنے والے سرکردہ ترین ارکان کانگریس میں شمار ہوتے تھے، کہا کہ داعش کو ابھی تک شکست نہیں دی جا سکی۔ انہوں نے کہا، ’’شام سے امریکی فوجی انخلاء امریکا کی بہت بڑی غلطی ہو گا، جس سے داعش کو مدد ملے گی کہ وہ دوبارہ خطے میں اپنے قدم جمانے کی کوششیں کرے۔‘‘
Published: undefined
اسی طرح ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن سینیٹر مارکو رُوبیو نے ٹرمپ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ایک ایسی ’خوفناک غلطی‘ ہو گا، جو اپنے نتائج کے حوالے سے اگلے کئی برسوں تک امریکا کا پیچھا کرتی رہے گی۔
Published: undefined
Published: undefined
ریاست کولوراڈو سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن پارٹی ہی کے سینیٹر کوری گارڈنر نے تو صدر ٹرمپ سے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ وہ فوری طور پر اپنا یہ فیصلہ منسوخ کریں۔ امریکی ایوان نمائندگان میں بھی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کی بہت بڑی تعداد اس سلسلے میں ٹرمپ کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہی ہے۔
Published: undefined
دوسری طرف ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی سرکردہ ترین خاتون اراکین میں سے ایک نینسی پیلوسی نے بھی کہا ہے کہ ٹرمپ کا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف فتح اور شام سے امریکی فوجی دستے واپس بلانے کا اعلان ’قبل از وقت اور بہت جلد بازی‘ میں اٹھایا گیا قدم ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یہ متنازعہ بن جانے والا فیصلہ صدر ٹرمپ کا ’بالکل اکیلے ہی کیا گیا ایک اور فیصلہ‘ ہے۔ سی این این کا کہنا ہے کہ اپنے اس فیصلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جیمز میٹس تک کو شامل نہیں کیا تھا۔
Published: undefined
اخبار نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع کے اعلیٰ ترین نمائندوں نے عین آخری لمحے تک صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ یہ اعلان نہ کریں لیکن پینٹاگون کی یہ سرکردہ شخصیات بھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
Published: undefined
شام میں امریکا کے اس وقت قریب دو ہزار فوجی تعینات ہیں، جو سرکاری طور پر شامی اپوزیشن گروپوں کی عسکری تربیت اور مشاورت کا کام کرتے ہیں۔ واشنگٹن نے شام میں اپنے لیے یہ کردار اس لیے بھی منتخب کیا تھا کہ امریکا ایک ایسے بین الاقوامی اتحاد میں بھی سب سے آگے ہے، جس کا مقصد شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو شکست دینا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
ادھر اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے اور اسرائیلی سلامتی پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔
وہائٹ ہاؤس کے ترجمان سارا ہنڈرس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے شام میں دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کو ہرانے کے ہدف کو حاصل کرنے کے اعلان کے کچھ وقت کے بعد ہی فوجیوں کو واپس بلالیا گیا۔
نیتن یاہو کے پریس دفتر سے جاری بیان میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’یقینی طور سے یہ فیصلہ امریکہ نے لیا۔ ہم اس کا جائزہ لیں گے کہ ان کے اس فیصلے سے ہم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کسی بھی حال میں اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائیں گے اور اس علاقے میں خود کو بچائے رکھنے کےلئے محتاط رہیں گے۔‘‘
نیتن یاہونے کہا کہ انہیں اس ہفتے کے ابتدا میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اوروزیر خارجہ مائک پومپیو کے ساتھ بات کی تھی انہوں نے یہ واضح کردیا تھا کہ ان کے پاس علاقے میں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے کئی اور طریقے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined