عالمی خبریں

افغانستان کے 65 فیصد علاقوں پر طالبان کا قبضہ: یورپی یونین

یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں تقریباً 4 لاکھ افغانی بے گھر ہوئے اور گزشتہ 10 دنوں کے دوران ایران فرار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

افغان طالبان / Getty Images
افغان طالبان / Getty Images 

کابل: یورپی یونین نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے افغان کی سرزمین پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے ملک کے 65 فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ یورپی یونین کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کو بتایا کہ طالبان اب 65 فیصد افغان سرزمین پر قابض ہیں، 11 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے رہی ہیں اور کابل کو شمال میں موجو قومی افواج کی روایتی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Published: undefined

اسی کے ساتھ یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں تقریباً 4 لاکھ افغانی بے گھر ہوئے اور گزشتہ 10 دنوں کے دوران ایران فرار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جہاں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے پریشان حال صدر اشرف غنی نے علاقائی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی حکومت کا ساتھ دیں وہیں اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ 20 سالوں میں انسانی حقوق کے سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی تھی وہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خطرے میں پڑ گئی ہے۔

Published: undefined

دارالحکومت کابل میں اشرف غنی کے ساتھیوں نے کہا کہ وہ علاقائی ملیشیاؤں سے مدد مانگ رہے ہیں جن کی مدد سے وہ کئی برسوں سے اپنی حکومت قائم رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں جبکہ عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ افغانستان کے جمہوری تشخص کا دفاع کریں۔ مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ شمالی قصبے مزار شریف اور کابل کے درمیان مرکزی سڑک پر صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک کے قصبے میں طالبان اپنا کنٹرول مضبوط تر کر رہے ہیں اور سرکاری عمارتوں میں منتقل ہو رہے ہیں اور اس دوران زیادہ تر حکومتی سیکورٹی فورسز پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہیں۔

Published: undefined

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایبک میں رہائش کے لیے حالات کے بارے میں پوچھے جانے پر صوبائی ٹیکس آفیسر شیر محمد عباس نے کہا واحد راستہ خود ساختہ نظربندی یا کابل کی راہ لینا ہے۔ نو افراد کے خاندان کے واحد کفیل شیر محمد عباس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اب کابل میں بھی کوئی محفوظ آپشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان ان کے دفتر پہنچے اور کارکنوں کو گھر جانے کو کہا لیکن منگل کو کسی قسم کی لڑائی دیکھی نہ سنی۔ برسوں سے شمالی علاقہ جات ملک کا سب سے پرامن حصہ تصور کیے جاتے تھے لیکن طالبان کی حکمت عملی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ وہ شمال کے ساتھ ساتھ شمال، مغرب اور جنوب میں اہم سرحدی گزرگاہوں پر بھی قبضہ کر کے کابل پر دباؤ بنانا چاہتے ہیں۔

Published: undefined

حکومت نے ان دیہی آبادیوں سے اپنی فوج واپس بلالی ہے جن کا دفاع ممکن نہیں اور اس کے بجائے زیادہ آبادی والے علاقوں کے دفاع پر توجہ دی جا رہی ہے۔ امریکہ سرکاری فوج کی حمایت میں فضائی حملے کرتا رہا ہے لیکن پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے پیر کو کہا ہے کہ اپنے ملک کی حفاظت کرنا افغان فوج کا کام ہے، یہ ان کی جدوجہد ہے۔

Published: undefined

طالبان اور سرکاری حکام نے تصدیق کی ہے کہ طلابان نے حالیہ دنوں میں شمال، مغرب اور جنوب میں چھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایک سیکورٹی عہدیدار نے بتایا کہ صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری میں ایبک کے جنوب مشرق میں طالبان نے کابل جانے والی سڑک کے سنگم پر شہر کو بند کر کے سیکورٹی فورسز کو گھیرے میں لے لیا تھا۔

Published: undefined

نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے سربراہ غلام بہاؤالدین جیلانی نے میڈیا کو بتایا کہ 34 میں سے 25 صوبوں میں لڑائی جاری ہے اور 60 ہزار خاندان پچھلے دو ماہ کے دوران بے گھر ہو چکے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کابل میں پناہ کے متلاشی ہیں۔

Published: undefined

ایران کی سرحد کے قریب مغربی افغانستان کے صوبے فراہ کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر فراہ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ طالبان نے گورنر کی رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ شہریوں نے بتایا کہ طالبان نے شہر کی تمام اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں جس میں ہتھیار ڈالنے والے سرکاری فوجیوں کو پھانسی دینے کی انتہائی پریشان کن اطلاعات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ کا خوف بے جا نہیں کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران انسانی حقوق ے سلسلے میں ہونے والی تمام تر پیش رفت رائیگاں چلی جائے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined