ڈاکٹر برونو رائشارٹ کی طرف سے کی جانے والی کامیاب سرجری کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ سؤر کا دل کسی انسان میں بھی ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے دیگر جانوروں کے بجائے صرف خنزیر کے دل کو ہی موزوں ترین کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ میونخ کے یونیورسٹی ہسپتال کے پروفیسر برونو رائشارٹ کا اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اخلاقیات کا یہاں پر بنیادی کردار ہے۔ ہم ایک عرصے سے خنزیر کا گوشت کھا رہے ہیں اور معاشرتی سطح پر ان کا قتل قابل قبول ہے۔ ان کی افزائش نسل بھی بہت تیزی سے ہوتی ہے، یہ ہر چار ماہ بعد بچے پیدا کرتے ہیں اور چھ ماہ بعد یہ بالغ بھی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کے دل کی ساخت بھی انسانی دل سے بہت ملتی جلتی ہے۔‘‘
Published: undefined
دوسری جانب گزشتہ چالیس برسوں سے خنزیر کے دل کے والوز کو بھی انسانی دل کے والوز کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ دل کی ٹرانسپلانٹیشن کا یہ تجربہ ایک بن مانس پر ہی کیوں کیا گیا ہے، اس حوالے سے پروفیسر رائشارٹ بتاتے ہیں، ’’یہ طبی حکام کی شرط ہے۔ اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن کسی سؤر یا کتے کے بجائے حیاتیاتی طور پر انسان سے قریب ترین مشابہت رکھنے والے جانور میں کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ نتائج اخذ کرنے میں آسانی رہتی ہے کہ آیا اس طرح کا کوئی تجربہ انسانوں میں بھی کامیاب رہے گا۔‘‘
Published: undefined
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی عام خنزیر کا دل کسی ضرورت مند انسان کو نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ اس طرح انسانی جسم اسے قبول نہیں کرتا، ’’کسی خنزیر کا دل ٹرانسپلانٹ کرنے سے پہلے اس میں جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ خنزیر کا دل کسی انسان کو لگانا مریض کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اس میں انسانی دل کی طرح خون کو پمپ کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے اور اس کے جینز میں پایا جانے والا ڈی این اے بھی خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔
Published: undefined
تاہم پروفیسر برونو رائشارٹ اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined