ویڈیو گریب
9 ستمبر کو قطر کی راجدھانی دوحہ پر اسرائیلی حملہ کے بعد دنیا کے بیشتر مسلم ممالک نے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی پرزور مذمت کی تھی۔ چند روز بعد مسلم ممالک نے قطر کی راجدھانی دوحہ میں ایمرجنسی اعلیٰ سطحی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں تمام مسلم ممالک کے سربراہان شامل ہو رہے ہیں۔ کانفرنس میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر سنجیدہ بات چیت کی جا رہی ہے۔ قطر پر حملے کے بعد سفارتی طور پر مصر نے بھی واضح موقف اپنایا ہے۔ مصر نے کہا کہ ’’اگر اس طرح کا حملہ ان کے ملک پر ہوا تو وہ بھی جوابی کارروائی کریں گے۔‘‘ مصری افسران نے خفیہ ذرائع کے حوالہ سے بتایا کہ اسرائیل کا اگلا ہدف مصر ہو سکتا ہے، جس کے بعد مصر نے صاف کر دیا کہ کسی بھی حملے کو براہ راست چیلنج اور اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔
Published: undefined
مصر نے مسلم ممالک کے سامنے ناٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) جیسا ایک فوجی اتحاد بنانے کی تجویز رکھی ہے۔ مصر کا مشورہ ہے کہ مسلم ممالک کو متحد کر ایک مشترکہ فوجی قوت (جوائنٹ آرمڈ فورس) بنایا جائے، جو کسی بھی مسلم ملک پر حملے کے خلاف تحفظ فراہم کر سکے۔ مصر قطر پر ہوئے حملے کو بڑے پیمانے پر جارحیت تصور کرتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مسلم ممالک کا یہ اتحاد واقعی میں ناٹو جیسا بااثر بن سکتا ہے۔
Published: undefined
مصر کی تجویز کی ایران اور عراق نے بھی حمایت کی ہے۔ حالانکہ اس منصوبہ کے سامنے کئی بڑے چیلنجز ہیں۔ مثلاً مسلم ممالک کے درمیان سیاسی اور عملی اختلافات۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان شیعہ-سنی کے معاملے پر کشیدگی، یا پھر ترکیہ اور کچھ دیگر ممالک کے درمیان اخوان المسلمین کے حوالے سے اختلاف۔ ترکیہ کی خواہش ہے کہ وہ مسلم ممالک کے اتحاد میں اہم کردار ادا کرے، لیکن سعودی عرب خود کو اسلامی ممالک کا رہنما تصور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی عرب ممالک کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک تمام مسلم ممالک متحد نہیں ہوں گے اور مشترکہ حکمت عملی نہیں اپنائیں گے تب تک ناٹو جیسے مضبوط اور موثر فوجی اتحاد کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔
Published: undefined
تصویر: @DKShivakumar
تصویر: سوشل میڈیا