علامتی تصویر / اے آئی
اسرائیل نے گزشتہ دنوں قطر کی راجدھانی دوحہ کے ڈپلومیٹک علاقے پر اچانک بمباری کر کے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ عالمی قانون کا پاس رکھتا ہے، نہ عالمی رائے عامہ کی پرواہ کرتا ہے، اور نہ ہی کسی ثالثی کو خاطر میں لاتا ہے۔ اس حملے کا اصل ہدف وہ حماس کے رہنما تھے جو امریکہ کی ثالثی میں جاری مفاہمتی گفتگو کے لئے قطر میں موجود تھے۔ حماس نے اس حملے میں اپنے چھ افراد کی موت کی تصدیق کی لیکن کہا کہ اس کے لیڈران محفوظ رہے۔
Published: undefined
یہ کارروائی دراصل اسرائیل کے اسی رویے کی غماز ہے جو برسوں سے جاری ہے یعنی طاقت کے نشے میں اندھا ہو کر ہر اصول کو روند دینا۔ حملہ اس وقت ہوا جب قطر میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے۔ اس حقیقت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اتنے بڑے فوجی اڈے کی موجودگی میں امریکہ کو حملے کی کوئی خبر نہ ہو؟ صدر ٹرمپ نے تو کہا ہے کہ وزیر اعظم نتن یاہو نے انہیں بتائے بغیر یہ کارروائی کی اور انہوں نے اس پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا، لیکن یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کو کچھ پتہ ہی نہ چلا ہو۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا رشتہ اتنا گہرا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر کوئی بڑی کارروائی ممکن ہی نہیں۔
یہ حملہ ایک اور نکتہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ عرب ممالک تو اس کی نگاہ میں پہلے ہی بے وقعت ہیں، لیکن اب وہ امریکہ کو بھی اپنے فیصلوں سے لاعلم رکھ سکتا ہے۔ اس اعتماد کی بنیاد امریکہ کی یہودی لابی ہے، جس کے دباؤ کے آگے ہر امریکی صدر جھکنے پر مجبور ہوتا ہے۔
Published: undefined
غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک ساٹھ سے ستر ہزار لوگ جان بحق ہو چکے ہیں، اور پورا علاقہ کھنڈر میں بدل چکا ہے۔ خود اسرائیل کو بھی بھاری معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے، لیکن امریکی حمایت نے اسے ڈھال فراہم کر رکھی ہے۔ حماس، حزب اللہ، حوثی اور ایران نے اسرائیل کی ناقابلِ تسخیر ہونے کی شہرت کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اس کے باوجود نتن یاہو کی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔
اس حملے سے مذاکرات کے تمام دروازے بند ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی عوام، خاص طور پر وہ خاندان جن کے افراد حماس کے پاس یرغمال ہیں، فکر مند ہیں کہ نتن یاہو کے خونیں جنون کی قیمت انہیں چکانی پڑ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو وہ حماس کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنا سکے ہیں۔
Published: undefined
عالمی سطح پر بھی اسرائیل کو اس روش کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ غزہ آپریشن سے پہلے فلسطینی ریاست کے قیام کو اتنی حمایت حاصل نہیں تھی، جتنی اب ہے۔ برطانیہ، فرانس، اسپین، کینیڈا اور یورپ کے دیگر ممالک کی حکومتیں اور عوام کھل کر اسرائیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے حق میں ہونے والی حالیہ ووٹنگ میں امریکہ اور چند اتحادیوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام ممالک بشمول ہندوستان نے اس کی حمایت کی ہے۔
لیکن نتن یاہو نے مزید دیدہ دلیری دکھاتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ پورا فلسطین ہمارا ہے اور ہم اس پر قبضہ کر لیں گے، کسی فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس اعلان نے نہ صرف اوسلو معاہدہ بلکہ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں ہونے والے ابراہیمی معاہدے کو بھی دفن کر دیا ہے۔ یہ طرزِ عمل صیہونی نظریے کے عین مطابق ہے، جو مقصد کے حصول کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرنے کو درست مانتا ہے۔
Published: undefined
قطر سمیت تمام عرب ممالک کے لئے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ کب تک امریکہ اور اسرائیل کے دھوکے میں رہیں گے۔ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے مفاد میں ہی کام کرے گا اور اسرائیل اپنی توسیع پسندی کے لئے کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ مصر، شام اور اردن تو درکنار، سعودی عرب بھی اس کے نشانے سے باہر نہیں۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے تو وہ اپنی جنگ خود ہی لڑنے پر مجبور ہیں، کیونکہ اب عرب دنیا میں نہ صلاح الدین ایوبی باقی ہے، نہ جمال عبد الناصر اور نہ شاہ فیصل۔
اسرائیل کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اپنے وجود سے لے کر آج تک اس نے کبھی عالمی قوانین یا رائے عامہ کا احترام نہیں کیا۔ وہ ایک پاگل ہاتھی کی طرح اپنے سامنے آنے والے کو کچلنے میں یقین رکھتا ہے۔ دوسری طرف قطر اور دیگر عرب ممالک نے بھی اس حملے پر جس بے حسی اور بزدلی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی جگہ شرمناک ہے۔ قطر کے پاس جدید ترین امریکی جنگی جہاز موجود ہیں، لیکن جب اسرائیل نے اس کی سرزمین پر بمباری کی تو ایک بھی جہاز آسمان پر نہ اڑ سکا۔ اسرائیل نے کتنے عرب ممالک کی فضائی سرحدوں کو عبور کیا، لیکن کسی نے اسے روکنے کی کوشش تک نہیں کی۔
Published: undefined
اس کے برعکس بے گھر فلسطینی آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ یمن جیسے غریب ملک کے حوثی جنگجو نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ایران نے اسرائیل کے اندر گھس کر اس کے آئرن ڈوم کو ناکارہ ثابت کیا ہے۔ مگر 1973ء کے بعد کسی عرب ریاست کی جانب سے اسرائیل پر کوئی براہِ راست حملہ نہیں ہوا۔ یہ نہ تو امن پسندی ہے اور نہ ہی مصلحت کوشی، بلکہ کھلی ہوئی بزدلی اور بے حسی ہے، جو عرب تاریخ کے شایان شان نہیں۔
اب عالمی برادری کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ 1948ء میں فلسطین کی تقسیم سے لے کر اوسلو معاہدے تک فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے کیے گئے تمام وعدے کیا تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیے جائیں گے؟ کیا دنیا ایک چھوٹے سے ملک کے سامنے ہمیشہ اسی طرح بے بس اور مجبور رہے گی؟ یہی اصل امتحان ہے عالمی ضمیر کا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined