عالمی خبریں

ٹرمپ مذاکرات بحال کرنا چاہیں تو ’دروازے کھلے‘ ہیں: افغان طالبان

شیر محمد عباس استانکزئی کا کہنا تھا کہ’’ہماری طرف سے مذاکرات کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی مذاکرات سے متعلق اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے گا‘‘۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

کابل: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر مستقبل میں امن مذاکرات بحال کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ’دروازے کھلے ہیں‘۔ افغان طالبان کی جانب سے بیان گزشتہ روز ہونے والے حملوں کے بعد آیا ہے جس میں تقریباً پچاس سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان کے مرکزی مذاکرات کار شیر محمد عباس استانکزئی نے اس پر زور دیا کہ ’’افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے‘‘۔ مرکزی مذاکرات کار نے امریکہ کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کچھ غلط نہیں کیا۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’انہوں نے ہزاروں طالبان کو ہلاک کردیا لیکن اسی اثنا میں اگر ایک (امریکی) سپاہی مارا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس طرح کا ردعمل ظاہر کریں کیونکہ دونوں طرف سے کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی ہے‘‘۔ شیر محمد عباس استانکزئی کا کہنا تھا کہ’’ہماری طرف سے مذاکرات کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، لہٰذا ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی مذاکرات سے متعلق اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے گا‘‘۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر معاہدہ پر عمل ہوتا تو طالبان اور غیرملکی افواج کے درمیان جنگ بندی عمل میں آچکی ہوتی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالبان افغان حکومتی فورسز کے درمیان اس طرح کی کوئی جنگ بندی موجود نہیں۔ شیر محمد عباس استانکزئی کا کہنا تھا کہ انٹرا افغان مذاکرات 23 ستمبر کو شروع ہونے تھے اور اگر معاہدہ طے پا جاتا تو اس میں وسیع تر جنگ بندی سے متعلق معاملات شامل ہوتے۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

دوران انٹرویو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ امن مذاکرات میں مدد کے لئے طالبان نے روس اور چین سے رابطہ کیا تھا۔ خیال رہے کہ طالبان کے مرکزی مذاکرات کار کا یہ انٹرویو امریکی صدر کے اس اعلان کے جلو میں آیا، جس میں انہوں نے افغان امن مذاکرات معطل کر دیئے تھے۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

علاوہ ازیں افغان قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ طالبان کے ’دھمکی آمیز ہتھکنڈے‘ کامیاب نہیں ہوں گے۔ ڈاکٹر حمداللہ محبت نے برٹش براڈ کاسٹنگ (بی بی سی) سے بتایا کہ ’’افغانستان میں امن کا واحد راستہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ہے‘‘۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے پڑوسی ممالک جو طالبان کی حمایت اور سرپرستی کر رہے ہیں ان سے کھل کر گفتگو اور ہمارے مذاکرات میں پیچھے نہیں آگے ہونا چاہیے‘‘۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان سے قبل امریکہ اور طالبان دونوں کے درمیان 18 سالہ طویل افغان جنگ کے خاتمہ کے لئے مذاکرات کے کافی قریب پہنچ گئے تھے۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

تاہم امریکی صدر نے ان مذاکرات کے معاہدہ کو حتمی شکل دینے سے قبل ہی ان کی معطلی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کی سینئر قیادت اور افغان صدر اشرف غنی سے 8 ستمبر کو کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی خفیہ ملاقات بھی منسوخ کردی تھی۔ امریکی صدر نے مذاکرات کی معطلی کا جواز کابل میں طالبان کے حملہ میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کو بنایا تھا۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

اگر دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدے پر نظر ڈالیں تو اس معطلی کے اعلان سے قبل 3 ستمبر کو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے یہ بتایا تھا کہ معاہدہ میں یہ شامل ہے کہ امریکا 20 ہفتوں میں افغانستان سے 5000 ہزارسے 400 فوجیوں کا انخلا کردے گا۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

تاہم ان فوجیوں کے انخلا کے بدلے میں طالبان کو یہ وعدہ کرنا تھا کہ افغانستان دوبارہ کبھی بیرونی دہشت گردی کے لیے مسکن نہیں بنے گا۔ یاد رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد سے افغانستان میں امریکی افواج موجود ہیں اور 18 سال سے طویل جنگ جاری ہے، جس کے باعث افغانستان بدامنی کا شکار ہے۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 18 Sep 2019, 7:10 PM IST