تصویر بشکریہ سوشل میڈیا، ویکیپیڈیا
نور جہاں کی پیدائش 21 ستمبر 1926 کو پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے قصور کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ پیدائش کے وقت نور جہاں کی خالہ نے نومولود بچے کے رونے کی آواز سن کر کہا- اس بچے کے رونے میں موسیقی ہے۔ نورجہاں کے والدین تھیٹر میں کام کرتے تھے۔ گھر میں فلمی ماحول کی وجہ سے نور جہاں بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھیں۔نور جہاں نے فیصلہ کیا کہ وہ بطور پلے بیک سنگر اپنی شناخت بنائیں گی۔ ان کی والدہ نے نورجہاں کے ذہن میں موسیقی کی طرف بڑھتے ہوئے جھکاؤ کو پہچان لیا۔ اس راستے پر آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور گھر پر موسیقی سیکھنے کا انتظام کیا۔
Published: undefined
نور جہاں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم کجن بائی سے اور کلاسیکی موسیقی کی تعلیم استاد غلام محمد اور استاد بڑے غلام علی خان سے حاصل کی۔ 1930 میں نور جہاں کو انڈین پکچر کے بینر تلے بننے والی خاموش فلم ’ہند کے تارے‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان پنجاب سے کلکتہ چلا گیا۔ اس عرصے کے دوران انہیں تقریباً 11 خاموش فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا، 1931 تک نور جہاں نے بطور چائلڈ آرٹسٹ اپنی پہچان بنا لی تھی۔ 1932 میں ریلیز ہونے والی فلم ششی پنوں نورجہاں کے سینما کیرئیر کی پہلی ٹاکی فلم تھی۔ اس عرصے میں نورجہاں نے کوہ نور یونائیٹڈ آرٹسٹ کے بینر تلے بننے والی کچھ فلموں میں کام کیا۔ کولکتہ میں ان کی ملاقات فلم پروڈیوسر پنچولی سے ہوئی۔
Published: undefined
پنچولی نے نورجہاں کو فلم انڈسٹری کی ابھرتی ہوئی اسٹار کے طور پر دیکھا اور انہوں نے انہیں اپنی نئی فلم گل بکاولی کے لیے منتخب کیا۔اس فلم کے لیے نورجہاں نے اپنا پہلا گانا ’سالا جوانیاں مانے اور پنجرے دے وچ‘ ریکارڈ کروایا۔ تقریباً تین سال کولکتہ میں رہنے کے بعد نور جہاں واپس لاہور چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات مشہور موسیقار جی اے چشتی سے ہوئی۔ جو اسٹیج پروگراموں میں موسیقی دیا کرتے تھے۔ انہوں نے نورجہاں کو اسٹیج پر گانے کی پیشکش کی جس کے بدلے میں نورجہاں کو فی گانا ساڑھے سات آنہ دیا گیا۔ ان دنوں ساڑھے سات آنہ اچھی رقم سمجھی جاتی تھی۔1939 میں پنچولی کی میوزیکل فلم گل بکاولی کی کامیابی کے بعد نور جہاں فلم انڈسٹری کی ایک مقبول شخصیت بن گئیں۔ اس کے بعد سنہ 1942 میں پنچولی کی پروڈیوس کردہ فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نور جہاں نے بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنائی۔
Published: undefined
فلم خاندان میں نورجہاں پر فلمایا گیا گانا ’کون سی بدلی میں میرا چاند ہے آجا‘ ناظرین میں کافی مقبول ہوا۔ فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نورجہاں نے فلم کے ہدایت کار شوکت حسین سے شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ ممبئی آگئیں۔ اس دوران نور جہاں نے شوکت حسین کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں میں نوکر، جگنو (1943) میں کام کیا۔نور جہاں نے اپنی آواز کے ساتھ مسلسل تجربہ کیا۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے انہیں ٹھمری گائیکی کی ملکہ کہا جانے لگا۔ اس عرصے کے دوران نورجہاں کی دہائی (1943)، دوست (1944) اور بڑی ماں، ولیج گرل (1945) جیسی کامیاب فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں میں ان کی آواز کے جادو نے شائقین کو متاثر کیا۔ اس طرح نورجہاں ممبئی فلم انڈسٹری میں ملکہ ترنم کہی جانے لگیں۔
Published: undefined
سال 1945 میں نورجہاں کی ایک اور فلم زینت بھی ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی ایک قوالی آہیں نہ بھری شکوے نہ کیا... کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا... سامعین میں بہت مقبول ہوئی۔ نور جہاں کو 1946 میں پروڈیوسر و ہدایت کار محبوب خان کی ریلیز ہونے والی فلم انمول گھڑی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ عظیم موسیقار نوشاد کی ہدایت کاری میں نور جہاں کے گائے ہوئے گانے، آواز دے کہاں ہے، آجا میری برباد محبت کے سہارے، جوان ہے محبت آج بھی سامعین میں مقبول ہیں۔
Published: undefined
سال 1947 میں تقسیم ہند کے بعد نور جہاں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ جب فلمی اداکار دلیپ کمار نے نورجہاں کو ہندوستان میں رہنے کی پیشکش کی تو نورجہاں نے کہا - میں اسی جگہ جاؤں گی جہاں میں پیدا ہوئی تھی۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد بھی نور جہاں نے فلموں میں کام جاری رکھا۔تقریباً تین سال تک پاکستانی فلم انڈسٹری میں خود کو منوانے کے بعد نور جہاں نے فلم چنا وے کو پروڈیوس اوراس کی ہدایت کاری کی۔ اس فلم نے باکس آفس پر کافی کمائی کی۔ اس کے بعد سال 1952 میں ریلیز ہونے والی فلم دوپٹہ نے فلم چنا وے کا باکس آفس ریکارڈ بھی توڑ دیا۔فلم دوپٹہ میں نورجہاں کے گائے ہوئے گانے ناظرین میں اس قدر مقبول ہوئے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہٹ ہوئے بلکہ پورے ہندوستان میں میں بھی دھوم مچادی۔ آل انڈیا ریڈیو سے لے کر ریڈیو سیلون تک نورجہاں کی آواز کا جادو سامعین پر چھایا رہا۔
Published: undefined
نور جہاں نے اس دوران گلنار (1953)، فتح خان (1955)، لخت جگر (1956)، انتظار (1956)، انارکلی (1958)، پردیسیاں (1959)، کوئل (1959) اور مرزا غالب (1961) جیسی فلموں میں کام کرکے سامعین کی بھرپور تفریح کی۔ سا ل 1963 میں نور جہاں نے اداکاری کی دنیا کو الوداع کہہ دیا، 1966 میں نور جہاں کو حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ سنہ 1982 میں انڈیا ٹاکی کی گولڈن جوبلی تقریب میں نور جہاں کو ہندوستان آنے کی دعوت دی گئی تو حاضرین کے مطالبے پر نور جہاں نے ’آواز دے کہاں ہے دنیا میری جوان ہے‘ گانا پیش کیا اور اس کے درد کو ہر دل نے محسوس کیا۔سال 1996 نورجہاں بھی آواز کی دنیا سے جدا ہو گئیں۔
Published: undefined
سال 1996 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’سکھی بادشاہ‘ میں نورجہاں نے اپنا آخری گانا کی دم دا بھروسہ گایا تھا۔ نورجہاں نے اپنے پورے فلمی کیرئیر میں بے شمار گانے گائے۔ نور جہاں نے ہندی فلموں کے علاوہ پنجابی، اردو اور سندھی فلموں میں بھی اپنی آواز سے سامعین کو مسحور کیا، اپنی دلکش آواز اور انداز سے سب کو مسحور کرنے والی نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined