فلم اور تفریح

مسلم ممالک میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں ہوتی تو ہندوستان میں کیوں؟ گلوکارہ انورادھا پوڈوال کا سوال

مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر پر چل رہے تنازعہ کے درمیان گلوکارہ انورادھا پوڈوال نے سوال کیا ہے کہ دنیا کے مسلم ممالک میں بھی لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاتی پھر ہندوستان میں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟

گلوکارہ انورادھا پوڈوال / آئی اے این ایس
گلوکارہ انورادھا پوڈوال / آئی اے این ایس 

نئی دہلی: مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر پر چل رہے تنازعہ کے درمیان گلوکارہ انورادھا پوڈوال نے سوال کیا ہے کہ دنیا کے مسلم ممالک میں بھی لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاتی پھر ہندوستان میں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر ہنومان چالیسا بھی بجائی جائے گی اور یہ ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔

Published: undefined

خیال رہے کہ حال ہی میں مہاراشٹر نو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرنے کے مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ملک کی تمام مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر نہیں اتارے گئے تو پھر ہندو طبقہ کے لوگ مسجدوں کے سامنے جا کر بہت تیز آواز میں ہنومان چالیسا بجائیں گے۔ اس علان کے بعد کئی مقامات پر ہندو قدامت پسندوں نے ایسا کیا بھی جس سے کشیدگی پیدا ہو گئی۔

Published: undefined

لاؤڈ اسپیکر سے اذان کے تعلق سے بولتے ہوئے انورادھا پوڈوال نے کہا ’’میں ملک و بیرون ملک کئی مقامت پر جا چکی ہوں لیکن میں نے ایسا کہیں اور ہوتے نہیں دیکھا، جیسا یہاں ہوتا ہے۔ اگرچہ میں کسی مذہب کے خلاف نہیں ہوں لیکن ہندوستان میں اس چلن کو بیجا فروغ دیا گیا ہے۔ مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان چلائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے باقی لوگ بھی اسپیکر چلاتے ہیں۔ مشرق وسطی میں تو لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر پابندی عائد ہے۔ جب مسلم ممالک میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں ہوتی تو پھر ہندوستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔‘‘

Published: undefined

حال ہی میں آج تک چینل سے بات چیت میں انورادھا پوڈوال نے کہا کہ ہمارے جو جگراتے (رات بھر بھجن گانا) تھے وہ بند ہو گئے۔ یہ ہمارا کلچر تھا نا، لیکن اسے بند کر دیا گیا اور ایسا اس لئے کیا گیا کیونکہ لوگوں کو 10 بجے کے بعد تکلیف ہوتی ہے۔ یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ کون سا مذہب ہے۔ یہاں مسئلہ لاؤڈ اسپیکر کا ہے۔ یہ لوگ بجائیں تو ہم کیوں نہ بجائیں، اس طرح دنیا میلہ بن جائے گی، ہر کوئی بھیڑ چال چلنا شروع کر دے گا۔

Published: undefined

انورادھا پوڈوال نے کہا کہ یہاں ہمیں امن سے رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ ہو۔ میرا صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا قانون بنایا جائے کہ رات 10 بجے کے بعد اونچی آواز میں لوگوں کو تکلیف ہو۔ اتنے لوگوں کی روزی جاگرتے میں گانے سے چلتی تھی، لیکن وہ بند ہو گئی۔ کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ قانون بنتا ہے تو سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ کرناٹک حکومت نے کہا ہے کہ اگر آپ کوئی لاؤڈ اسپیکر چلاتے ہیں تو وہ صرف ایک مخصوص شدت تک چل سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک اچھی چیز ہے۔

Published: undefined

یاد رہے کہ انورادھا پوڈوال بالی ووڈ فلموں کے علاوہ بھجن بھی گاتی ہیں ہیں اور ان کے بھجن ملک کے کونے کونے میں موجود مندروں میں علی الصبح بجائے جاتے ہیں۔ انورادھا اذان پر سوال اٹھانے والی پہلی سنگر نہیں ہیں، اس سے قبل سونو نگر بھی ایسا ہی کر چکے ہیں۔ سونو نگم کو اذان پر اپنے تبصرے کی وجہ سے اپنے سر کے بال بھی منڈانے پڑ گئے تھے۔

سونو نگم نے سال 2017 میں لاؤڈ اسپیکر سے اذان پر اعتراض ظاہر کیا تھا اور اسے غنڈہ گردی تک قرار دے دیا تھا۔ سونو نگر نے ٹوئٹر پر لکھا تھا، ’’میں مسلمان نہیں ہوں، پھر بھی مجھے اذان کی وجہ سے صبح اٹھنا پڑتا ہے۔ ہندوستان میں جبراً مذہب کو مسلط کئے جانے کا یہ سلسلہ کب بند ہوگا؟‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined