غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں رواں برس اب تک 71 جب کہ گزشتہ برس 403 خواتین قتل کر دی گئیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے فعال حلقے اس مسلم اکثریتی ملک میں پدرشاہی روایات کو عورتوں کے خلاف تشدد کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ترکی میں خواتین کے خلاف تشدد کے تشویش ناک واقعات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں برس اب تک مختلف واقعات میں 71 خواتین قتل کی جا چکی ہیں۔ ان میں سے سات صرف ایک دن یعنی ستائیس فروری کو قتل کی گئیں۔ یہ اب تک ایک دن میں اس نوعیت کی ہلاکتوں کی سب سے زیادہ معلوم تعداد ہے۔
Published: undefined
صنف کی بنیاد پر قتل کے واقعات پر نظر رکھنے اور تشدد کا شکارخواتین کو تحفظ فراہم کرنے لیے قائم ایک غیر سرکاری ادارے We Will Stop Femicides (ڈبلیو ڈبلیو ایس ایف) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں گزشتہ ایک سال کے دوران 403 خواتین قتل کی گئیں۔ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل فدان اتا سلیم نے ان ہلاکتوں کی وجہ اس مسلم اکثریتی ملک میں گہری پدر شاہی روایات اور مردوں کے ساتھ پریشان کن رشتے چھوڑنے کی خواہش مند خواتین کی ایک بڑی تعداد کو قرار دیا۔
Published: undefined
اتا سلیم نے کہا، ''ترکی میں خواتین زیادہ آزادانہ اور زیادہ مساوی طور پر رہنا چاہتی ہیں۔ خواتین مثبت معنوں میں بہت بدل چکی اور ترقی کر چکی ہیں۔ مرد اس بات کو قبول نہیں کر سکتے اور وہ پرتشدد طریقے سے خواتین کی ترقی کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ترکی وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے 2011ء میں یورپی معاہدے پر دستخط کیے اور اس کی توثیق کی، جسے استنبول کنونشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن ترک صدر رجب طیب ایردوان نے 10 سال بعد ترکی کو اس معاہدے سے الگ کر لیا۔ اس فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا تھا۔
Published: undefined
صدر ایردوآن کا یہ فیصلہ اسلامی گروپوں اور ان کی اسلام پسند جماعت کے کچھ عہدیداروں کے دباؤ کے بعد سامنے آیا تھا۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ یہ معاہدہ قدامت پسند اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا، روایتی خاندانی اکائی کو ختم کرتا ہے اور طلاق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
Published: undefined
رجب طیب ایردوآن نے کہا تھا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرد اور عورت کی تخلیق حیاتیاتی طور پر برابری کی سطح پر نہیں کی گئی اور عورت کی ترجیح اس کا خاندان اور بطور ماں کردار ہونا چاہیے۔ ترک صدر کا اصرار تھا کہ ترکی کو استنبول کنونشن کی ضرورت نہیں اور انہوں نے ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے اقدمات میں مسلسل اضافے کا عزم بھی کیا تھا۔ ایردوآن حکومت نے خواتین کے مسلسل تعاقب اور انہیں تنگ کرنے کو جرم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف گزشتہ برس قانون سازی کرتے ہوئے دو سال تک قیدکی سزا مقرر کی تھی۔
Published: undefined
ترکی میں خاندانی امور کی وزیر ماہ نور اوزدیمیر گوکتاش کہتی ہیں کہ انہوں نے خواتین کے تحفظ کو ترجیح دی ہے اور خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات کی وہ ذاتی طور پر پیروی کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''اگر متاثرین اپنی شکایات سے دستبردار بھی ہو جائیں، تو بھی ہم ان مقدمات کی پیروی جاری رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے ہر کیس بہت اہم ہے۔‘‘
Published: undefined
خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں خواتین کے تحفظ کے لیے یورپی معاہدے میں ترکی کی واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ تنظیمیں تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے ٹیلی فون ہاٹ لائن کے قیام اور مزید پناہ گاہیں کھولنے کے مطالبے بھی کر رہی ہیں۔
Published: undefined
اتا سلیم کا کہنا ہے کہ سب سے اہم خواتین کے تحفظ کے لیے موجودہ اقدامات کا مناسب طریقے سے نافذ کیا جانا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا الزام ہے کہ عدالتیں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے ان مردوں کے لیے نرم رویہ رکھتی ہیں، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں جرم پر اکسایا گیا تھا یا وہ ٹرائل کے دوران پچھتاوے یا اچھے برتاؤکا مظاہرہ کریں۔
Published: undefined
ترکی میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن آٹھ مارچ یعنی آج خواتین کے عالمی دن اور 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پرسڑکوں پر نکلتے ہیں۔ یہ کارکن خواتین کو زیادہ تحفظ دینے اوریورپی کنونشن میں ترکی کی واپسی کے مطالبے کرتے ہیں۔ ترک حکام سکیورٹی کے نام پر ایسی عوامی ریلیوں پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ ان مظاہروں میں شامل افراد کے پاس اکثر ایسے بینرز ہوتے ہیں، جن پر ''میں مرنا نہیں چاہتی‘‘ جیسے الفاظ تحریر ہوتے ہیں۔
Published: undefined
یہ دراصل ایک ترک خاتون ایمن بلوط کی طرف سے ادا کیے گئے وہ آخری الفاط تھے، جو انہوں نے وسطی ترکی میں واقع کریکالے شہر کے ایک کیفے میں اپنے قتل سے پہلے ادا کیے تھے۔ 2019ء میں بلوط کو ان کے شوہر نے ان کی دس سالہ بیٹی کی موجودگی میں گردن کاٹ کر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے نے پوری ترک قوم کو صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined