DW

میں نے ہمت کیوں ہاری؟

معیاری روایات اس وقت تک رہتی ہیں جب تک اخلاقی قدروں کا وجود ہوتا ہے۔ جب یہ زوال پذیر ہو جائیں تو پھر معاشرہ بھی انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔

میں نے ہمت کیوں ہاری؟
میں نے ہمت کیوں ہاری؟ 

ہمارے معاشرے میں اب کسی فرد کی عزت اُس کی ایمانداری کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس کی دولت اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ کسی وقت رشوت خور کے گھر سے کچھ کھانے پینے کو حرام سمجھا جاتا تھا۔جب کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کے سامنے ہر چیز کھلی اور صاف نظر آتی ہے۔ وہ دُور تک بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھ سکتا ہے۔ بُلند و بالا عمارتیں بھی اس کی حد نگاہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ہیں۔ جب وہ بلندی سے نیچے دیکھتا ہے تو چلتے پھرتے انسان اُسے بونے نظر آتے ہیں اور نیچے کی دنیا چلتے پھرتے کھلونوں کی مانند ہوتی ہے۔ بلندی اور پستی ذہنی کیفیت کو بدل دیتی ہے۔

Published: undefined

یہی صورتحال اُس فرد کی ہوتی ہے، جو زندگی کی آخری منزل پر ہوتا ہے۔ ماضی کی یادیں ایک ایک کر کے آتی ہیں اور اُس کو یادوں کی دنیا میں لے جاتیں ہیں۔ طویل زندگی اُس کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کر سکے۔ تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کو مفکرین نے بیان کیا ہے۔ اُن کا نقطہ نظر ماضی کی دستاویزات اور تاریخ کے مخطوطات کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے لیکن ایک فرد بھی اپنی طویل زندگی کے تجربات کی روشنی میں اخلاقی قدروں کے زوال، لوگوں کی ذہنی پسماندگی، سیاسی اور سماجی انتشار کو ذوال پزیر ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔

Published: undefined

میری صورتحال بھی یہی ہے کہ زندگی کے اس آخری مرحلے پر میری پوری زندگی میرے سامنے ہے۔ ایک کھلے میدان کی طرح اس میں خوشگوار یادیں بھی ہیں اور غم سے بھرے واقعات بھی، وقت کے ساتھ زندگی میں تبدیلیاں آتی رہیں، کچھ پرانے واقعات یاد رہے اور کچھ ذہن کی تہوں میں گم ہو گئے۔ اب میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھے ملازمت کرنا آیا ہی نہیں، ملازمت میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ اَفسر کی ماتحتی میں رہا جائے۔ اُس کی خوشامد کی جائے اور اپنی آزادی کو پابند کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکا اس لیے میں اپنی تمام ملازمتوں میں ناکام رہا۔ یہاں تک کہ جرمنوں کی ملازمت میں بھی یہی اُصول کار فرما تھا کہ باس کی ماتحتی کی جائے اور اُس سے کوئی اختلاف نہ کیا جائے۔

Published: undefined

میری جوانی کے زمانے میں میرے پاس طاقت اور توانائی تھی۔ اپنے اُوپر اعتماد تھا۔ اس لیے میں نے اپنے حق کے لیے ہر موقع اور جگہ پر لڑائی لڑی۔ مجھے یاد ہے کہ میری پہلی ملازمت ایک اسکول میں تھی۔ جب گرمیوں کی چھٹیاں آئیں تو تنخواہ دینے کی وجہ سے مجھے ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ اس پر میں نے اسکول کو قانونی نوٹس دیا۔ جس پر اُنہوں نے تنخواہ تو دے دی مگر مجھے دوبارہ ملازم نہیں رکھا۔

Published: undefined

میری قانونی جنگ جاری رہی۔ جب شیخ ایاز نے مجھے (جو سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے) معطل کیا اور ایک سال بعد کسی وزیر کی سِفارش پر میری ملازمت بحال کر دی۔ لیکن معطلی کے وقت کی تنخواہ نہیں دی۔ اس پر میں نے یونیورسٹی کو قانونی نوٹس دیا اور اپنے واجبات وصول کیے۔ جب 1989ء میں لاہور آیا تو فرنٹیئر پوسٹ میں کالم لکھنا شروع کیے۔ جب تک خالد احمد، ایڈیٹر تھے، کالم کا معاوضہ پاپندی سے ادا ہوتا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے میرے معاوضے کی رقم جمع ہوتی گئی تو میں نے عدالتی کاروائی کی اور اخبار سے رقم موصول کی۔ اُس کے بعد میرا واسطہ پبلشروں یا ناشران سے پڑا۔ انہوں نے میری کتابیں تو شائع کیں مگر یہ ان کتابوں کی رائلٹی دینے کو تیار نہ تھے۔ لہٰذا یہاں بھی میں نے کچھ ناشران کے خلاف عدالتی کاروائی کی۔ ان سے لڑنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ تعداد سے زیادہ کتابیں چھاپ کر فروخت کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا میں نے آخر میں یہی سوچا کہ کتابیں تو لِکھوں مگر اُنہیں شائع نہ کراؤں۔

Published: undefined

اس وقت پاکستان میں پبلشروں کے رویے میں ایک تبدیلی آئی ہے کہ وہ مصنف سے کتاب چھاپنے کے پیسے لیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ممالک میں رہنے والے مصنفین پیسے دے کر اپنی کتابیں شائع کراتے ہیں۔ ان میں اکثر کتابیں شاعری کی ہوتیں ہیں، جنہیں کوئی پڑھنا گوارا نہیں کرتا۔ اس صورتحال میں ان مصنفین کے لیے جو سنجیدہ موضوعات پر لِکھتے ہیں اور مالی طور پر اس قابل نہیں کہ پیسے دے کر اپنی کتاب چھپوائیں، ان کی کتابیں شائع نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً ضائع ہو جاتیں ہیں۔

Published: undefined

اس صورتحال کا اثر معاشرے میں تخلیق شدہ ادب پر ہوتا ہے، جو روز بروز غیرمعیاری ہو رہا ہے۔ شاعری افسانہ نگاری، ناول نگاری اور سماجی علوم میں کوئی اعلیٰ پائے کی تخلیق سامنے نہیں آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سستی اور سنسنی خیز کتابیں مقبول ہو جاتیں ہیں اور یہی لوگوں کی ذہن سازی کرتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اخباروں میں اعلیٰ معیاری مضامین چھپتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ خاص طور پر اُردو اخباروں میں جو کالم شائع ہوتے ہیں اُن کا کوئی معیار نہیں ہے۔ اُردو اخبار کالم نویسوں کو بھی معاوضہ نہیں دیتے ہیں۔ اب رہا چینل کا سلسلہ تو ان میں سوائے ٹاک شوز کے اور کوئی معیاری معلوماتی پروگرام نہیں ہوتا نہ ہی اَدبی پروگرام، نہ موسیقی کی محفلیں اور نہ سنجیدہ موضوعات پر بحث و مباحثہ۔ اس نے بھی لوگوں کے ذہنوں کو بدل دیا ہے۔ روزمرّہ کی زبان غیرمعیاری ہو گئی ہے۔ غلط معلومات کے ذریعے ناظرین کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تہذیب کا سب سے بڑا معیار اُس کی اخلاقی قدریں ہوتیں ہیں ۔ یعنی ایمانداری، دیانت، اُصول کی پابندی، ادب، آداب اور نشست و برخاست میں سلیقہ، محفلوں میں رکھ رکھاؤ، دعوتوں میں کھانے کے آداب کو ملحوظ رکھنا اب یہ سب آہستہ آہستہ ختم ہو گیا ہے۔ دعوتوں میں جس طرح لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں نظم و ضبط ناپید ہو گیا ہے اور کھانے کے آداب جو کسی زمانے میں ہمارے معاشرے میں موجود تھے، اب کہیں نظر نہیں آتے۔ جب کسی بھی معاشرے میں سیاسی استحکام نہ رہے علمی اور ادبی سوچ کا خاتمہ ہو جائے، فرد کو اپنی عزت اور آبرو کا خیال نہ رہے، تو معاشرے میں بدعنوانیاں رِشوت ستانی، سازشوں، فریب اور جعلسازی کو فروغ ملتا ہے۔ کیونکہ معیاری روایات اس وقت تک رہتی ہیں جب تک اخلاقی قدروں کا وجود ہوتا ہے۔ جب یہ زوال پذیر ہو جائیں تو پھر معاشرہ بھی انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

میں نے اپنی ابتدائی زندگی میں ایمانداراساتذہ اور افسروں کو بھی دیکھا ہے اور وہ وقت بھی یاد ہے کہ جب رشوت لینے والے کے گھر کھانے پینے کو حرام سمجھا جاتا تھا لیکن یہ روایات آہستہ آہستہ دم توڑتی چلی گئیں۔ اب کسی فرد کی عزت اُس کی ایمانداری پر نہیں بلکہ اُس کی دولت و اَثر و رسوخ پرمنحصر ہے۔

Published: undefined

اب جب میری حق تلفی ہوتی ہے تو مجھ میں ہمت نہیں کہ میں عدالتوں میں جا کر انصاف کے لیے لڑوں۔ اب جرائم پیشہ اور مافیا کے لوگ اس قدر طاقتور ہیں، چاہے یہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکتھے ہوں، اُن سے نہیں لڑا جا سکتا۔ اب میں نے نہ صرف ہمت ہار دی ہے، بلکہ اپنی شِکست کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined